پاکستان میں مقامی حکومتوں میں خواتین کی نمائندگی

اقتدار و اختیار کے باہمی تعلقات مل کر ملک کا سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی ماحول بناتے ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ یہی تعلقات ان تمام شعبوں میں خواتین کی بھرپور شمولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ سیاست ان شعبوں میں سے ایک ہے جہاں صنفی عدم مساوات اب عالمی توجہ حاصل کر چکی ہے۔ رائے دہندگان سے لے کر منتخب ارکان تک، خواتین کی نمائندگی ہر جگہ کم ہے اور اس کا سبب صلاحیتوں کی کمی نہیں بلکہ سیاسی امتیاز اور ثقافتی بندشوں کا ماحول ہے جو خواتین کو جمہوری حکومتوں میں بھی برابر شمولیت سے محروم کرتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے جن میں ووٹ دینے اور تمام انتخابی عہدوں کے انتخاب میں حصہ لینے کے معاملے میں مردوں اور خواتین کے سیاسی حقوق کی برابری بھی شامل ہے۔ آئین، تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں برابری کی ضمانت دیتا ہے اور نہ صرف جنس کی بنیاد پر امتیاز سے روکتا ہے بلکہ ریاست کو خواتین کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کی گنجائش بھی مہیا کرتا ہے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 34 میں کہا گیا ہے کہ قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی بھرپور شمولیت یقینی بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔

سال 2000 میں ایک شاندار پیشرفت اس وقت ہوئی جب اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے منصوبے کے تحت پاکستان کے سیاسی منظرنامے کی ازسرِنو تشکیل ہوئی۔ لوکل گورنمنٹ آرڈر (ایل جی او) کے تحت اصلاحی پالیسی اقدامات کے ذریعے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کا عمل خاص طور پر قابل ذکر تھا۔ لوکل گورنمنٹ یا مقامی حکومتوں کی سیاست کی اس تشکیلِ نو کی بدولت خواتین کے لئے 33 فیصد نشستیں مخصوص کر دی گئیں جن کا انتخاب بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد مقامی حکومتوں کے نظام کی تشکیل اور سیاسی، انتظامی و مالی اختیارات اور ذمہ داریاں مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کے حصے میں آ گئی۔ اس وقت تمام صوبوں میں نافذ مقامی حکومت کے قوانین میں نچلی سطح پر خواتین کی شمولیت سے متعلق دفعات شامل ہیں۔ ذیل میں مقامی حکومت کے موجودہ قوانین کا مختصر تجزیہ دیا گیا ہے جس کا مقصد نچلی سطح پر انتخابی عمل میں خواتین کی شمولیت سے متعلق دفعات کو یکجا کرنا ہے۔

کیٹیگری پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ، 2019 خیبرپختونخواہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ،  2013 سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ، 2013 بلوچستان لوکل گورنمنٹ ایکٹ، 2010
خواتین کی مخصوص نشستیں

جزو A – شہری مقامی حکومتیں: 53 (14 فیصد)

جزو B – تحصیل کونسلیں: 33 (14 فیصد)

ضلع کونسل: 342

تحصیل کونسلیں: 349

(ہر ضلع کونسل میں مخصوص نشستوں کی تعداد مختلف ہے)

ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن: 22 فیصد

میٹروپولیٹن کارپوریشن: 22 فیصد

ضلع کونسل: 22 فیصد

میونسپل کارپوریشن: 22 فیصد

میونسپل کمیٹیاں: 22 فیصد

ضلع کونسلیں: 33 فیصد

یونین کونسلیں: 33 فیصد

میونسپل کمیٹیاں: 33 فیصد

میونسپل کارپوریشن: 33 فیصد

میٹروپولیٹن کارپوریشن: 33 فیصد

خواتین کی سیاسی شمولیت سے متعلق سیکشن سیکشن83، ذیلی سیکشن (6) مقامی حکومت کے سربراہ کے عہدے کے امیدوار کے علاوہ، کوئی بھی سیاسی جماعت یا انتخابی گروپ کم ازکم اتنی تعداد میں اہل امیدوار کھڑے کرے گا جتنی تعداد میں جنرل کونسلروں اور خواتین، مذہبی اقلیتوں، مزدوروں اور کارکنوں کے لئے مخصوص نشستیں ہیں۔ سیکشن 74، ذیلی سیکشن (4) (4) تحصیل کونسل اور ضلع کونسل میں خواتین، مزدوروں اور غیرمسلموں کے لئے مخصوص نشستیں پُر کرنے کے لئے ارکان کا انتخاب متعلقہ مقامی کونسل میں ہر سیاسی جماعت کی طرف سے حاصل کی گئی جنرل نشستوں کی کل تعداد کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی فہرست کے متناسب نمائندگی کے نظام کے ذریعے کیا جائے گا۔ سیکشن 9 کے تحت ہر انتظامی یونٹ خواتین کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور جنرل نشست یا مخصوص نشست پر منتخب ہونے کا بھرپور موقع فراہم کرتا ہے۔ ہر انتظامی یونٹ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور جنرل نشست یا مخصوص نشست پر منتخب ہونے کا بھرپور موقع فراہم کرتا ہے۔
انتظامی کمیٹیوں میں خصوصی نمائندگی

سیکشن 20: کونسلوں میں کونسلروں کی نمائندگی – (2) ذیلی سیکشن (1) میں شامل کوئی بات خواتین یا مذہبی اقلیتوں یا دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والی کسی خاتون یا شخص کو جنرل نشست کا امیدوار بننے یا منتخب ہونے سے نہیں روکے گی۔ سیکشن 174، لوکل گورنمنٹ فنانس کمیشن کا قیام، ذیلی سیکشن (g) چار ماہرین جن میں سے ایک خاتون ہو گی، ایکٹ ہذا کے سیکشن 174 کی رو سے مقامی حکومتوں اور مقامی حکومتوں کے امور خزانہ کے لئے مقرر کئے جائیں گے۔

سیکشن 238، کمیشن کے چیئرپرسن اور ارکان، ذیلی سیکشن (e) چار ماہر ارکان، جن میں ایک خاتون شامل ہوں گی، کو ایکٹ ہذا کے سیکشن 241 کی رو سے مقرر کیا جائے گا۔

ولیج کونسل اور محلہ کونسل کی ترکیب۔ ذیلی سیکشن (b) خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر منتخب دو ارکان۔

سیکشن 54، لوکل گورنمنٹ کمیشن، ذیلی سیکشن (c) دو ممتاز، سند یافتہ اور تجربہ کار ٹیکنوکریٹس، بشمول ایک خاتون کو حکومت تین سالہ مدت کے لئے منتخب کرے گی۔

ایک خاتون، بطور خواتین کی خاتون نمائندہ، ہر انتظامی یونٹ (یونین کونسل، یونین کمیٹی اور ٹاؤن کمیٹی) کی انتظامی کمیٹی میں شامل ہو گی۔

سیکشن 81، مصالحت انجمن کی تشکیل – (1) ہر یونین میں، ایک مصالحت انجمن تشکیل دی جائے گی جو تین ارکان کے پینل پر مشتمل ہو گی جس میں کم ازکم ایک خاتون شامل ہو گی، جن میں سے ایک اس کی کنوینر ہو گی۔

سیکشن 130، ڈویژنل رابطہ کمیٹی۔ (b) خصوصی مفادات کی نمائندگی کرنے والے ہر گروپ جن میں مزدور، کارکن اور خواتین شامل ہیں، کے نمائندہ کو کسی ڈویژن میں موجود مختلف یونین کونسلوں کے متعلقہ گروپوں سے تعلق رکھنے والے ارکان، طے شدہ طریقے سے منتخب کریں گے۔

خواتین کی بہبود سے متعلق سیکشن کوئی نہیں کوئی نہیں

سیکشن 4، صحت و زچگی مراکز، ذیلی سیکشن (a)  مراکز صحت، زچگی مراکز اور خواتین، شیرخوار بچوں اور بچوں کی بہبود کے مراکز قائم کریں، ان کا انتظام چلائیں، انہیں برقرار رکھیں یا ان کی دیکھ بھال کریں۔

(c) اس طرح کے دیگر ضروری امور کی منظوری جو خواتین، شیرخوار بچوں اور بچوں کی صحت اور بہبود کے فروغ کے لئے ضروری سمجھے جائیں۔ ایکٹ کا سیکشن 63، سماجی بہبود (e) پسماندہ طبقات، اور بے سہارا خواتین اور بچوں کی بہبود کے فروغ کے لئے ایسے اقدامات کئے جائیں جیسا کہ تجویز کئے جائیں۔ ذیلی سیکشن 56 (صحت عامہ) مراکز صحت، مراکز زچہ و بچہ اور شیرخوار بچوں اور بچوں کی بہبود کے مراکز کا قیام، انتظام وانصرام، دیکھ بھال اور معائنہ، دائیوں، مڈوائف کی تربیت اور ایسے دیگر اقدامات جن سے خواتین، شیرخوار بچوں اور بچوں کی صحت و بہبود کو فروغ ملنے کا امکان ہو۔

اختیاری فرائض۔ (صحت عامہ)۔ (1) خواتین، شیرخوار بچوں اور بچوں کے لئے مراکز صحت، زچہ و بچہ مراکز کا قیام، دیکھ بھال، انتظام وانصرام یا ان میں کردار ادا کرنا۔

سماجی بہبود دیہی کونسلیں۔ 41۔ پسماندہ طبقات، مسلح افواج میں  خدمات انجام دینے والوں کے خاندانوں اور خواتین اور بچوں کی بہبود کے فروغ کے لئے ایسے اقدامات کرنا، جیسا کہ تجویز کئے جائیں۔

صحت عامہ (9) مراکز صحت، زچہ و بچہ مراکز اور شیرخوار بچوں اور بچوں کی بہبود کے لئے مراکز کا قیام، انتظام وانصرام اور ان کے دورے، دائیوں کی تربیت اور ایسے دیگر اقدامات کرنا جن سے خواتین، شیرخوار بچوں اور بچوں کی صحت و بہبود کو فروغ ملنے کا امکان ہو۔

 

Skip to content