پاکستان میں تحفظِ خواتین پر قانون سازی، 2010-20

آزادی کے بعد پاکستان میں تحفظِ خواتین کے لئے ہونے والی قانون سازی کئی رخ اختیار کر چکی ہے۔ آزادی کے ساتھ ہی پاکستانی خواتین کو رائے دہی کا حق مل گیا تھا۔ اس کے بعد 1961 میں ایوب خان کی جانب سے متعارف کرایا گیا ‘فیملی لاء آرڈیننس’ خواتین کی خودمختاری کے لئے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔ البتہ ضیاء حکومت نے ‘حدود آرڈیننس’ کے ذریعے حقوقِ نسواں پر کئی قدغنیں عائد کر دیں اور معاشرے میں مردوں اور خواتین کے درمیان توازن کو منتشر کر دیا۔ اس پر امتیاز کی ایک لہر چل نکلی، جس کے خلاف ملک بھر میں حقوقِ نسواں کے کارکنوں نے بھرپور آواز بلند کی۔ ان سرگرمیوں کی بدولت ایک مفاہمتی عمل کی راہ ہموار ہوئی اور حقوقِ نسواں پر بحث آگے بڑھی۔ پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر حقوقِ نسواں سے متعلق کئے گئے وعدوں نے ان سرگرمیوں کو مزید تقویت بخشی جن کی بنیاد پر کچھ قوانین متعارف کرائے گئے۔ بہرحال یہ سارا عمل تقریباً تین دہائیوں پر محیط ہے۔

پاکستان میں حقیقی معنوں میں انسانی حقوق کے نفاذ اور خواتین کے لئے ایک جمہوری اور محفوظ ریاست کے قیام کے لئے اگرچہ ایک طویل سفر طے کرنا ابھی باقی ہے لیکن حقوقِ نسواں کے تحفظ کے لئے قانونی اصلاحات کے اعتبار سے 2006 کا سال انتہائی اہم رہا جب آزادی کے چھ دہائیاں بعد ‘تحفظ نسواں قانون’ کا نفاذ کیا گیا۔ یہ ایکٹ خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں اور کارکنوں کی مسلسل جدوجہد اور مساعی کا  ثمر تھا۔

اختیارات کی صوبائی حکومتوں کو منتقلی اور صوبائی سطح پر ‘ویمن ڈویلپمنٹ’ کے محکموں کے قیام سے خواتین کی خودمختاری کے لئے خاطرخواہ گنجائش پیدا ہو گئی اور صوبائی سطح پر حقوقِ نسواں کے تحفظ کی سرگرمیوں میں تیزی آئی جس کے نتیجے میں کئی شاندار بل مختلف صوبائی ایوانوں میں بحث کے لئے پیش کئے گئے۔ بدقسمتی سے ان میں سے بعض مسودوں کو قانون کی شکل نہ مل پائی لیکن ان پر ہونے والی بحث نے ثابت کر دکھایا کہ خواتین کی خودمختاری ایک بااختیار معاشرے کی بنیاد ہے۔

زیرِنظر تجزیہ ان قوانین کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے جو 2010 سے 2020 کے دوران قومی سطح پر حقوقِ نسواں کے تحفظ و فروغ کے لئے بنائے گئے ہیں۔ اس تجزیہ کا اصل مقصد نہ صرف خواتین کی خودمختاری اور حقوقِ نسواں کو تحفظ دینے کے لئے کئے گئے اہم قانونی اقدامات کو اجاگر کرنا ہے بلکہ اس پختہ عزم کو بھی سمجھنا ہے جس کا مظاہرہ مختلف حکومتوں کی جانب سے اس ضمن میں اقدامات کے حوالے سے کیا گیا۔

اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اس کردار کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جو انہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں خواتین کی خودمختاری سے متعلق ان قوانین کے فروغ کے سلسلے میں ادا کیا۔

خواتین کی خودمختاری کے لئے وفاقی سطح پر بنائے گئے قوانین  (2010-2020) 1

نمبرشمار تاریخ اجراء قانون کا عنوان برسراقتدار سیاسی جمااعت
اسمبلی میں بل پیش کرنے والے ارکان کے نام بل پیش کرتے وقت سیاسی وابستگی
 

1

9 مارچ 2010، بروز منگل خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسیت سے تحفظ دینے کا ایکٹ، 2010 پاکستان پیپلز پارٹی سید یوسف رضا گیلانی پاکستان پیپلز پارٹی
 

2

12 اگست 2010، بروز جمعرات بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایکٹ، 2010 پاکستان پیپلز پارٹی ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان پاکستان پیپلز پارٹی
 

3

30 دسمبر 2011، بروز جمعہ پریشان حال اور زیرحراست خواتین کے فنڈ کا (ترمیمی) ایکٹ، 2011 پاکستان پیپلز پارٹی سید ممتاز عالم گیلانی پاکستان پیپلز پارٹی
 

4

19 اکتوبر 2016، بروز بدھ فوجداری قانون (ترمیمی) (ریپ سے متعلق جرائم) ایکٹ، 2016 (ایکٹ XLIV، سال 2016) پاکستان مسلم لیگ (ن) ڈاکٹر نفیسہ شاہ پاکستان پیپلز پارٹی
 

5

19 اکتوبر 2016، بروز بدھ فوجداری قانون (ترمیمی) (غیرت کے نام پر یا اس کے سیاق وسباق میں جرائم) (ایکٹ XLIII، سال 2016) پاکستان مسلم لیگ (ن) ڈاکٹر نفیسہ شاہ پاکستان پیپلز پارٹی
 

6

17 مارچ 2017، بروز جمعہ ہندو شادی ایکٹ، 2017 (ایکٹ نمبر VII، سال 2017) پاکستان مسلم لیگ (ن) پرویز رشید پاکستان مسلم لیگ (ن)
 

7

18 مئی 2018، بروز جمعہ پریشان حال اور زیرِحراست خواتین کے فنڈ کا (ترمیمی) ایکٹ، 2018 (ایکٹ نمبر XIX، سال 2018) پاکستان مسلم لیگ (ن) کامران مائیکل پاکستان مسلم لیگ (ن)

تحفظ خواتین (فوجداری قانون میں ترمیم) ایکٹ، 2006، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کی خودمختاری میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے جس نے مختلف حالات میں خواتین کے تحفظ سے متعلق دیگر قوانین کی بنیاد رکھ دی۔ اس نے نہ صرف خواتین کے خلاف امتیازی قوانین کو منسوخ کیا بلکہ خواتین سے متعلق جرائم پر مجرموں کے لئے باقاعدہ جرمانے بھی وضع کئے۔ آئین میں ترمیم کے بعد حقوقِ نسواں کے لئے ایڈووکیسی اور لابی سرگرمیوں کی گنجائش بڑھ گئی اور خواتین سے متعلق قوانین کے لئے یکساں مواقع پر مبنی ماحول میسر آ گیا۔

اس قانون کے بعد مختلف شعبوں میں نئے قوانین متعارف کرانے کے لئے متعدد کوششیں کی گئیں، جس کی ایک مثال پنجاب میں گھریلو بدسلوکی کا قانون ہے، لیکن اس بحث نے دیگر صوبوں میں کوئی خاطرخواہ نتائج نہیں دکھائے۔

اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے بعد اگرچہ صوبوں کو ضرورت کے مطابق قانون  سازی کے اختیارات مل گئے ہیں لیکن خواتین کی خودمختاری اور تحفظِ نسواں کے لئے قانون سازی کے میدان زیادہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ عام طور پر ایوان میں پیش کئے جانے والے بل واپس لے لئے جاتے ہیں کیونکہ انہیں حمایت سے زیادہ مخالفت ملتی ہے۔ ثقافتی اور مذہبی پابندیاں ان اہم وجوہات میں شامل ہیں جن کی بناء پر حقوقِ نسواں سے متعلق قانون سازی مختلف ایوانوں میں طول پکڑ جاتی ہے۔ تاہم عالمی برادری کے مسلسل دباؤ، ملک میں حقوقِ نسواں کے فروغ کے لئے بین الاقوامی سطح پر کئے گئے وعدوں اور ان  سے متعلق رپورٹیں جمع کرانے کی ذمہ داریوں کے پیش نظر پاکستان نے کسی نہ کسی شکل میں خواتین کی خودمختاری سے متعلق قوانین کے نفاذ کے لئے بعض اہم اقدامات کئے ہیں۔

کام کی جگہ پر خواتین کو ہراسیت سے تحفظ دینے کا ایکٹ، 2010

کام کی جگہ پر جنسی ہراسیت کے خلاف قانون کے نفاذ کے لئے کئی سال پر پھیلی طویل جدوجہد بالاآخر رنگ لائی اور 9 مارچ 2010 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں یہ قانون نافذ ہوا۔

یہ قانون سازی اس مقصد کے تحت کی گئی کہ خواتین کے کام کرنے کے لئے محفوظ ماحول پیدا کیا جائے جو ہراسیت، بدسلوکی اور ڈراؤ دھمکاؤ سے پاک ہو تاکہ باوقار طریقے سے کام کے حق کی تکمیل ہو سکے، پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو اور معیار زندگی میں بہتری آئے۔ ہراسیت ان بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے کئی خواتین جو کام کر کے خود کو اور اپنے خاندان کو غربت سے نکالنا چاہتی ہیں، کام نہیں کر پاتیں۔2 اس ایکٹ کی بدولت خواتین کے لئے ہر سطح پر ملک کی ترقی میں زیادہ بھرپور طریقے سے حصہ لینے کی راہیں کھل گئیں۔ مردوں اور خواتین کے لئے برابر مواقع کے اصول اور آئین کی رو سے کسی امتیاز کے خوف کے بغیر ذرائع معاش کمانے کے حق کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ ایکٹ خواتین کو ملک کی معاشی سرگرمیوں میں آزادانہ طریقے سے شامل ہونے کے قابل بناتا ہے۔ آئی ایل او کے طے شدہ معیارات کی پاسداری کرتے ہوئے خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے حکومت نے یہ قانون نافذ کر کے حقوقِ نسواں کے ساتھ اپنی پختہ وابستگی کا اظہار کیا تاکہ خواتین کو ایک ایسے محفوظ ماحول میں آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے جو ہراسیت اور ڈراؤ دھمکاؤ سے پاک ہو۔ یہ ایکٹ نہ صرف ‘انسانی حقوق کے اعلامیہ’، اور ‘خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمہ کے کنونشن’ کی پاسداری کرتا ہے بلکہ کارکنوں کے حقوق پر آئی ایل او کے کنونشن 100 اور 111 کے بھی عین مطابق ہے۔ یہ ایکٹ تمام سرکاری اور نجی اداروں اور تنظیموں کو پابند بناتا ہے کہ وہ اپنا ایک داخلی ضابطہ اخلاق اپنائیں اور کام کرنے والی تمام خواتین کے لئے ڈراؤ دھمکاؤ اور بدسلوکی سے پاک، محفوظ ماحول قائم کرنے کے مقصد کے تحت شکایات/ اپیلوں کا ایک باقاعدہ
ظام وضع کریں۔ اس کے تحت وفاقی اور صوبائی سطح پر محتسب کا ادارہ بھی قائم کیا گیا۔
3

پریشان حال اور زیرِ حراست خواتین کے فنڈ کا (ترمیمی) ایکٹ، 2011

‘پریشان حال اور زیرحراست خواتین کے فنڈ کا ایکٹ’ پاکستان کی پارلیمنٹ نے 1996 میں منظور کیا۔ ایکٹ کے تحت قواعد 1999 اور 2011 میں وضع کئے گئے اور وزارتِ انسانی حقوق کے تحت اسے عملی شکل دینے کے لئے اس میں ترمیم بھی کی گئی۔ ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا فنڈ پریشان حال اور زیرِحراست خواتین کو مالی اور قانونی معاونت فراہم کرتا ہے۔ فنڈ کے تحت درج ذیل کیٹیگریز کی مستحق خواتین کو قانونی امداد، ضمانت اور دیگر معاونت کے لئے 10 ہزار روپے تک کی رقم مہیا کی جا سکتی ہے: زیرِحراست خواتین (جن کا مقدمہ زیرسماعت ہو، جو سزا یافتہ ہوں یا دارالامان میں ہوں)، کتب کے لئے ، بطور مشاہرہ ادائیگی یا خواتین کے لئے تدریسی ملازمتیں۔ شدید مشکلات کا شکار خواتین کو بحالی میں مدد دینے کے لئے بھی رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔ ذہنی امراض سمیت شدید بیماریوں کا شکار معذور خواتین یا جو پریشان حال ہوں اور جنہیں طبی امداد کی ضرورت ہو۔ اس قانون کے تحت خواتین کی جو دیگر کیٹیگریز طے کی گئی ہیں ان میں آتشزدگی کی زد میں آنے والی خواتین، پریشان حال خواتین اور دیگر چھوٹے بچے جنہیں رہائش کی ضرورت ہو، خاوند کے ہاتھوں سنگین بدسلوکی کا شکار ہونے والی خواتین اور شدید پریشانی سے دوچار اسی نوعیت کی دیگر خواتین۔

بورڈ آف گورنرز اور صوبائی کمیٹیاں، وزارتِ انسانی حقوق میں قائم اس فنڈ کے سیکرٹیریٹ کی مدد سے اس کا انتظام چلاتے ہیں۔ 2018 میں ایکٹ کے سیکشن 6، ذیلی سیکشن 1 کی شق (i) تا (viii) میں ترمیم کر کے اس کے انتظامی قواعد طے کئے گئے اور ایڈمنسٹریٹو ڈویژن میں بعض کیٹیگریز کی خواتین کو بھی شامل کیا گیا۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایکٹ، 2010

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایکٹ، غیرمشروط امدادی رقوم کی منتقلی کا ایک پروگرام قائم کرنے اور اس کے تمام امور و معاملات چلانے کے لئے نافذ کیا گیا۔ اس قانون میں پروگرام کے تحت کئے جانے والے اقدامات، اس سے مستفید ہونے والے افراد اور ملک کے غریب ترین گھرانوں کی حالت بہتر بنانے کے طریقوں کا تعین کر دیا گیا ہے۔ پروگرام کا وسیع تر مقصد ملک میں دولت کی تقسیمِ نو کے مقاصد کو پورا کرنا ہے اور ایک طویل عرصے غربت کا شکار اور ان افراد کو کم سے کم آمدنی کی صورت میں ایک امدادی پیکج مہیا کرنا ہے جنہیں مستقبل کے معاشی بحرانوں سے منفی طور پر متاثر ہونے کا خدشہ درپیش ہو۔ پروگرام کا قلیل مدتی مقصد غریب طبقے پر خوراک، ایندھن اور مالی بحرانوں سے مرتب ہونے والے منفی اثرات کے مقابلے کے لئے ریلیف فراہم کرنا ہے۔ اس قانون میں بتایا گیا ہے کہ یہ پروگرام کس طرح قائم کیا جائے گا، اس پروگرام کے قیام کے مقاصد اور اہداف کیا ہوں گے اور یہ پروگرام کس طرح چلایا جائے گا۔ اس قانون میں جہاں پروگرام کے فرائض منصبی بعینہ بیان کر دئیے گئے ہیں، وہیں پروگرام سے مستفید ہونے والے افراد  کی اہلیت کے لئے عمومی رہنما اصول اور رقوم کی ادائیگی کے طریقے بھی بیان کر دئیے گئے ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا شمار امدادی رقوم کی غیرمشروط منتقلی کے سب سے بڑے پروگراموں میں ہوتا ہے جس سے ہر سال لاکھوں غریب خاندان مستفید ہوتے ہیں اور ان کے معاشی حالات بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ پروگرام کا سب سے اہم پہلو خواتین اور بچوں کو کم سے کم آمدنی کا امدادی پیکج فراہم کرتے ہوئے معاشی بحرانوں سے محفوظ رکھنا ہے۔

فوجداری قانون (ترمیمی) (ریپ سے متعلق جرائم) ایکٹ، 2016 (ایکٹ XLIV، سال 2016 )

تحفظِ خواتین (فوجداری قانون میں ترمیمی) ایکٹ، 2016، کے نفاذ کے ساتھ ہی خواتین کو بدسلوکی سے تحفظ دینے اور پریشانی کی صورت میں قانونی اقدامات کے سلسلے میں مدد دینے کے لئے اہم قانونی اصلاحات بھی کی گئیں۔ تاہم ریپ سے متعلق فوجداری قواعد و ضوابط  کا متعلقہ اداروں اور حکام نے کھلم کھلا غلط استعمال کیا۔ بھرپور لابی سرگرمیوں کی بدولت قانون میں اس نقطہ نظر سے ترمیم کی گئی کہ یہ متاثرین کے لئے زیادہ مددگار و معاون ہو جبکہ کسی بھی بناء پر ضابطے کی کارروائی کا غلط استعمال کرنے والے افراد کے لئے  سزاؤں/ جرمانوں کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس طرح 2016 میں ریپ سے متعلق جرائم کے لئے فوجداری قانون میں ترمیم کی راہ ہموار ہوئی جس میں تحقیقاتی عمل میں کسی بھی طریقے سے دخل دینے والے افراد پر سخت سزائیں عائد کی گئیں۔ قانون میں کی گئی یہ ترمیم مکمل قانونی تحفظ کی شکل میں ریپ سے متاثرہ خواتین کی مدد بھی کرتی ہے۔

ہندو شادی ایکٹ، 2017 (ایکٹ نمبر VII، سال 2017 )

9 مارچ 2017 کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے ‘ہندو شادی بل’ کی منظوری دی۔ پاکستان کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے ناطے یہ ہندو برادری کے لئے ایک بڑا اصلاحی اقدام تھا جو ان کے حق میں جاتا تھا کیونکہ اب وہ اپنی شادی کا اندراج کرا سکتے ہیں اور اس کی قانونی سند حاصل کر سکتے ہیں ۔ سرکاری طور پر بل کو ‘ہندو شادی ایکٹ، 2017’ کا نام دیا گیا جس پر اس وقت کے صدر ممنون حسین نے دستخط کئے۔ ایکٹ پر عملدرآمد کا بنیادی مقصد ان خواتین کو تحفظ دینا تھا جن کے ساتھ ناانصافیاں ہو رہی تھیں۔ ایک رکن کمیٹی کا کہنا تھا کہ “وزارتِ انسانی حقوق نے وزارتِ مذہبی امور سے عدم اعتراض کی سند حاصل کرنے کے بعد اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لئے بھی کوئی قدم تو اٹھایا۔ یہ ایک اہم سنگ میل ہے کیونکہ یہ ہندو خواتین کو بااختیار بناتا ہے اور شادی شدہ ہندو مردوں اور خواتین کو باقاعدہ دستاویز حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جس کی ان کی شادی کو قانونی طور پر تسلیم شدہ حیثیت مل جاتی ہے۔ یہ اس لئے بھی انتہائی اہم ہے کہ  اس میں شادی سے متعلق شرائط ضبطِ تحریر میں آ جاتی ہیں، اس میں علیحدگی کے لئے قانونی کارروائی کا طریقہ بھی مہیا کر دیا گیا ہے اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ کس بناء پر علیحدگی اختیار کی جا سکتی ہے۔

قوانین کے مذکورہ بالا تجزئیے سے ہمارے سامنے ایک بالکل واضح تصویر آ جاتی ہے کہ کن حکومتوں نے قوانین کے نفاذ میں گہری دلچسپی لی اور  اقوامِ عالم میں پاکستان کا مقام بہتر بنانے کے لئے ان امور پر قانون سازی کی۔ گزشتہ دس سال کے عرصے میں جو قوانین منظور کئے گئے ان کی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے نہ صرف اپنے اقتدار کے دوران تحفظ خواتین پر قانون سازی میں نمایاں دلچسپی دکھائی بلکہ حزب اختلاف میں رہتے ہوئے بھی اس میدان میں پیش پیش رہی۔ 2006 کے بعد جہاں حقوقِ نسواں کی تحریک نے زور پکڑا، وہیں اس عرصے کے دوران کئی ایسے قوانین اور ترامیم بھی نافذ ہوئیں جن کی بدولت خواتین کو زیادہ آزادی ملی، انہیں بدسلوکی سے تحفظ ملا اور ان خطرات کا مقابلہ کرنے کی راہیں پیدا ہوئیں جو زندگی کے کسی بھی میدان میں خواتین کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ کا باعث بنتے تھے، اور یوں خواتین کے لئے معاشرے میں امتیاز سے پاک  ماحول پیدا کرنے میں بھی مدد ملی۔

  1. اسمبلی میں بل پیش کرنے والے ارکان کی معلومات قومی اسمبلی سے ‘معلومات تک رسائی کے حق کے ایکٹ، 2017، کے تحت دی گئی ایک ‘درخواست برائے معلومات’ کے ذریعے لی گئی ہیں۔
  2. https://sahsol.lums.edu.pk/law-journal/protection-against-harassment-women-workplace-act-2010-legislative-review
  3. https://qau.edu.pk/pdfs/ha.pdf
Skip to content