ہیلری رودہیم کلنٹن، امریکہ کی وزیر خارجہ، امریکی ریاست نیویارک سے سینیٹر، امریکہ کی خاتون اول اور امریکی ریاست آرکنساس کی خاتون اول رہ چکی ہیں۔ وہ نہ صرف ایک وکیل ہیں بلکہ قانون کی پروفیسر، سرگرم کارکن اور رضاکار بھی ہیں لیکن ان کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے کبھی اس بات کو فراموش نہیں کیا کہ وہ کہاں سے ہیں یا مقصد کی خاطر مصروف جدوجہد ہیں۔
ان کی پرورش ایک متوسط گھرانے میں ہوئی، انہوں نے اپنے والدین کی مشکلات کو بہت قریب سے دیکھا اور اس نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ وہ دنیا بھر کے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی جدوجہد کا حصہ بن گئیں۔ عقیدے کے طور پر ان کے والدین نے ان کی پرورش میتھوڈسٹ کے طور پر کی تھی۔ نوجوانوں کی وزارت سے اپنی وابستگی کے دوران ہیلری کلنٹن ایک بار شکاگو گئیں جہاں انہوں نے مارٹن لوتھر کنگ کی تقریر سنی جس کے بعد ان کے اندر سماجی انصاف کی چنگاری بھڑک اٹھی اور انہوں نے زندگی بھر اس کی خاطر کام کرنے کی ٹھان لی۔
جونیئر سکول اور پھر ہائی سکول میں انہوں نے سماجی انصاف کی سرگرمیوں کے لئے اپنے کام کو مزید تیز کر دیا۔ وہ یالے لاء سکول سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والی 27 خواتین میں سے واحد خاتون تھیں جنہوں نے کسی بڑی لاء فرم کے ساتھ وابستگی اختیار نہیں کی۔ امریکی ریاست ماساچوسیٹس کے ادارے، نیو بیڈفورڈ ما، میں معذور بچوں کے ساتھ کئے گئے کام نے ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا جہاں انہوں نے ان بچوں کی کہانیاں سنیں اور انہیں اندازہ ہوا کہ ان بچوں کے سکولوں میں سہولیات کی کس قدر کمی ہے۔ انہوں نے بچوں کی جو کہانیاں تیار کی تھیں وہ اس تاریخی قانون سازی کا حصہ بنیں جس کے تحت ریاست کو پابند کر دیا گیا کہ وہ معذور طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کرے۔ آگے چل کر میدان سیاست میں انہوں نے بڑی بڑی ذمہ داریاں سنبھالیں لیکن ان بچوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ان کی وابستگی میں کبھی کمی نہ آئی۔ وہ آرکنساس کی خاتون اول بنیں تو اس پلیٹ فارم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے تعلیمی معیارات اور صحت کی سہولیات تک رسائی بہتر بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ آرکنساس میں ان کی سرگرمیاں محض خاتون اول کی ذمہ داریاں نبھانے تک محدود نہیں رہیں۔ وہ “آرکنساس ایڈووکیٹس فار چلڈرن اینڈ فیملیز” کی بانیوں میں شامل تھیں، جس کا شمار اس ریاست میں بچوں کے اولین ایڈووکیسی گروپوں میں ہوتا ہے جو اس شعبے میں شاندار اصلاحات کے لئے سرگرم رہا ہے۔
نظام صحت میں اصلاحات لانے کی تحریک میں انہیں بڑی بیمہ کمپنیوں کے مقابلے میں شکست بھی کھانا پڑی لیکن اس سے ان کے جذبوں میں کوئی کمی نہ آئی۔ ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن دونوں پارٹیوں کے حامیوں کے ساتھ مل کر وہ ایک “چلڈرن ہیلتھ انشورنس پروگرام” شروع کرانے میں کامیاب رہیں جو 80 لاکھ سے زائد بچوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرتا ہے اور بیمہ سے محروم بچوں کی تعداد نصف تک کم کرانے میں کامیاب رہا ہے۔
1995 میں خواتین پر اقوام متحدہ کی چوتھی عالمی کانفرنس میں کی گئی ان کی بے مثال تقریر دنیا بھر کی خواتین کے لئے آج بھی مشعل راہ کا کام دیتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ، “انسانی حقوق، خواتین کے حقوق ہیں اور خواتین کے حقوق، انسانی حقوق ہیں، ہر جگہ، ہر وقت، سب کے لئے”۔
سال 2000 میں امریکی سینیٹ کی رکن کی حیثیت سے ہیلری کلنٹن نے بش انتظامیہ پر زور ڈالا کہ وہ نیویارک کی تعمیر نو کے لئے 20 ارب ڈالر مختص کرے جبکہ ستمبر 2011 میں انہوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد ‘گراؤنڈ زیرو’ پر سب سے پہلے امداد کے لئے پہنچنے والوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے بھی تحریک چلائی۔ ہیلری کلنٹن نے “ٹرائی کیئر” کا دائرہ وسیع کرنے کے لئے بھی جدوجہد کی جس کی بدولت ریزرو فوجیوں اور نیشنل گارڈ کے ارکان اور ان کے اہل خانہ کو صحت کی بہتر سہولیات تک رسائی ملی۔ دیہی علاقوں میں انہوں نے جو خدمات انجام دیں وہ بھی اپنی مثال آپ تھیں جہاں انہوں نے سائبرسپیس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیویارک میں آن لائن اشیاء کی فروخت کی ویب سائٹ “ای بے” اور مقامی کالجوں کے درمیان ایک جدت آمیز پارٹنرشپ کی بنیاد ڈالی جس کے تحت چھوٹے کاروباری افراد کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں معاونت اور چھوٹے قرضے فراہم کئے گئے اور ان کے لئے تربیتی پروگرام شروع کئے گئے تاکہ وہ اپنی اشیاء آن لائن فروخت کر سکیں۔ انہوں نے ریاست کے دورافتادہ علاقوں میں براڈبینڈ کی سہولت فراہم کرنے میں بھی مدد دی۔ ہیلری کللنٹن نے نیویارک کے کسانوں اور پیداواری کارکنوں کے لئے “فارم ٹو فورک” کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تاکہ یہ لوگ اپنی مصنوعات نیویارک کے ہوٹلوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو فروخت کر سکیں۔
باراک اوباما، امریکہ کے صدر بنے تو انہوں نے ہیلری کلنٹن کو وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے اپنی اس دیرینہ جدوجہد سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور 2008 کے انتخابات کے بعد ایک بار پھر عوامی خدمت کے میدان میں اتر آئیں۔ انہوں نے دنیا میں امریکہ کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کیا جس کے بارے میں سابق ریپبلیکن وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ انہوں نے “محکمہ خارجہ کو انتہائی موثر انداز میں چلایا جس کی مثال میں نے آج تک نہیں دیکھی”۔
ہیلری کلنٹن کا شمار انسانی حقوق، انٹرنیٹ کی آزادی اور دنیا بھر کی خواتین اور لڑکیوں، ایل جی بی ٹی افراد اور نوجوانوں کے لئے حقوق اور مواقع کے پرزور حامیوں اور علمبرداروں میں ہوتا ہے۔
2016 میں ہیلری کلنٹن نے امریکی صدر کے انتخاب میں اس یقین کے ساتھ حصہ لیا کہ امریکی ایک ساتھ، زیادہ مضبوط ہیں۔ جولائی 2016 میں وہ صدر کے لئے کسی بڑی پارٹی کی طرف سے نامزد کی گئی پہلی امیدوار بنیں اور انتخابات میں 6 کروڑ 60 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ انہوں نے اپنی تنظیم “آن ورڈ ٹوگیدر” کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جو عوام کو منظم ہونے، انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے پر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ترقی پسندانہ اقدار کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہے۔