مادرِ ملت کے نام سے جانی جانے والی، فاطمہ جناح کا شمار پاکستان کی تحریک آزادی کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ان سے محبت اور عقیدت کا بڑا سبب یہی ہے کہ وہ اپنے بھائی قائدِ اعظم محمد علی جناح کی پرجوش حامی تھیں، لیکن فاطمہ جناح کی اپنی شخصیت بھی کچھ کم اہم نہیں۔
فاطمہ جناح، 1893 میں پیدا ہوئیں۔ 1901 میں والد کی وفات کے بعد وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہنے لگیں۔ بھائی کی ہی حوصلہ افزائی پر انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالج میں حصولِ تعلیم کے دوران وہ ہاسٹل میں مقیم رہیں۔ 1923 کے دنوں میں جب یہ سوچنا بھی محال تھا کہ مسلم خاندان کی لڑکیاں کوئی پیشہ اختیار کریں، اس وقت فاطمہ جناح نے کلکتہ میں اپنا ڈینٹل کلینک کھولا۔ قائدِ اعظم کی اہلیہ، رتی جناح کا انتقال ہوا تو وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی ترک کر کے اپنے بھائی کے ساتھ جا کر رہنے لگیں اور اُن کے گھر اور کم سن بھتیجی کی دیکھ بھال کرنے لگیں۔
میدانِ سیاست میں وہ اپنے بھائی کے شانہ بشانہ رہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل ہوئی تو محترمہ فاطمہ جناح، بمبئی صوبائی ورکنگ کمیٹی کی رکن بن گئیں اور 1947 تک اس میں کام کرتی رہیں۔ مارچ 1940 میں انہوں نے مسلم لیگ کے قراردادِ لاہور کے جلسے میں بھی شرکت کی۔ محترمہ فاطمہ جناح کی کوششوں کی بدولت ہی فروری 1941 میں دہلی میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی۔ تقسیمِ ہند اور اقتدار کی منتقلی کے دوران فاطمہ جناح نے خواتین کی امدادی کمیٹی بنائی اور یہی وہ تنظیم تھی جس نے بعد میں آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) کی شکل اختیار کر لی جس کی بنیاد رعنا لیاقت علی خان نے رکھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادکاری کے لئے انہوں نے بے پناہ کام کیا۔ بعد ازاں وہ میدانِ سیاست میں بھی واپس آئیں اور صدرِ پاکستان کے انتخابات میں حصہ لیا۔
1965 میں انہوں نے روایت شکنی کرتے ہوئے ایوب خان کو چیلنج کیا اور صدرِ پاکستان کے عہدے کے لئے ان کا خوب مقابلہ کیا۔ ان کے شروع کے جلسوں میں تقریباً ڈھائی لاکھ لوگ ڈھاکہ میں اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے آ پہنچے اور چٹاگانگ تک لاکھوں لوگ قطاروں میں اُن کے استقبال کو کھڑے تھے۔ اُن کی ٹرین جس کا نام ‘آزادی سپیشل ٹرین’ تھا، 22 گھنٹے تاخیر سے پہنچی کیونکہ جا بجا لوگ گاڑی کی ایمرجنسی بریک کھینچ دیتے اور اُن کی منتیں کرنے لگتے کہ وہ اُن سے بات کریں۔ وہ واقعی مادرِ ملت تھیں۔
سماجی ترقی کے میدان میں بھی فاطمہ جناح کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے بیگم لیاقت علی خان کے ساتھ مل کر خواتین کی بیداری اور ملکی امور میں ان کی شمولیت کے لئے شاندار خدمات انجام دیں۔ فاطمہ جناح، آج اگر پاکستانی بچیوں کے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہیں تو اُن کی شاندار کامیابیوں سے بھرپور زندگی کے پیشِ نظر وہ بجا طور پر اس کی مستحق دکھائی دیتی ہیں۔