سیاہ فام امریکی خاتون ہونے کے ناطے، کونڈولیزا رائس کو، کئی بڑے بڑے کام پہلی بار کر دکھانے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔ وہ صرف ایک سیاست دان ہی نہیں بلکہ ایک مصنفہ اور معلمہ بھی ہیں جنہوں نے نسل پرستی کی تمام بندشوں کو توڑ کر امریکہ کی مرکزی سیاست میں اپنی ایک جگہ بنائی اور بھرپور سیاسی شمولیت کے ذریعے فیصلہ سازی میں خواتین کے وسیع تر موقف کو عمدہ طریقے سے پیش کیا۔
کونڈولیزا رائس، پہلی سیاہ فام خاتون ہیں جنہوں نے امریکہ کی مشیر قومی سلامتی کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ (سیکرٹری آف سٹیٹ) کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ پہلی خاتون اور پہلی افریقی امریکی شہری ہیں جو سٹینفرڈ یونیورسٹی کی پروووسٹ بنیں۔ ایک افریقی امریکی خاتون کے لئے پہلی بار یہ اعزازات حاصل کرنا کسی لحاظ طرح سے معمولی بات نہ تھی جس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد کارفرما تھی۔ کونڈولیزا رائس، 1954 میں پیدا ہوئیں اور ان کی پرورش نسل پرستی میں گھرے ماحول میں ہوئی۔ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد 1981 میں انہوں نے سٹینفرڈ یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کی پروفیسر کے طور پر شمولیت اختیار کی۔ 1993 میں وہ سٹینفرڈ یونیورسٹی کی پروووسٹ کے عہدے پر تعینات ہونے والی پہلی خاتون اور پہلی سیاہ فام امریکی شہری بن گئیں اور چھ سال تک یہ خدمات انجام دیتی رہیں۔ اس دوران انہوں نے یونیورسٹی کی چیف بجٹ اور اکیڈمک آفیسر کے طور پر بھی فرائض انجام دئیے۔
کونڈولیزا رائس نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1980 کی دہائی میں کیا جس کے دوران انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے ساتھ انٹرنیشنل افیئرز فیلو کے طور پر کافی عرصہ گزارا۔ 1989 میں وہ قومی سلامتی کونسل میں سوویت و مشرقی یورپ کے امور کی ڈائریکٹر اور سوویت یونین کی تحلیل اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے دوران صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کی خصوصی معاون رہیں۔ 1997 میں وہ فوج میں “جنڈر انٹیگریٹڈ ٹریننگ” پر وفاقی مشاورتی کمیٹی میں خدمات انجام دیتی رہیں۔ 1997 میں صدر جارج ڈبلیو بش نے کونڈولیزا رائس کو قومی سلامتی کی مشیر بنا دیا اور یوں وہ اس عہدے پرفائز ہونے والی نہ صرف پہلی خاتون بلکہ پہلی افریقی امریکی شہری بھی بن گئیں۔ اس کے بعد وہ امریکی وزیر خارجہ کے عہدے پر تعینات ہونے والی پہلی افریقی امریکی خاتون بھی بنیں جنہیں 2004 میں کولن پاول کے استعفے کے بعد امریکہ کی 66 ویں وزیر خارجہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ 2005 سے 2009 تک اس عہدے پر خدمات انجام دیتی رہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے کونڈولیزا رائس نے “تغیر پذیر سفارت کاری” کو اپنے محکمے کا نصب العین بناتے ہوئے جمہوریت کی تعمیر و پائیداری، دنیا بھر اور بالخصوص مشرق وسطیٰ میں عمدہ طرزحکمرانی پر مبنی ریاستوں کے قیام پر کام کیا۔
سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر، وہ مختلف کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔ ان کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
Germany Unified and Europe Transformed – جو انہوں نے 1995 میں فلپ زیلیکوف کے ساتھ مل کر تحریر کی۔
The Gorbachev Era – جو انہوں نے الیگزینڈر ڈالن کے ساتھ مل کر 1986 میں لکھی۔
Uncertain Allegiance: The Soviet Union and the Czechoslovak Army – جو انہوں نے 1984 میں تحریر کی۔
کونڈولیزا رائس کی اپنی نظر میں وہ محض ایک سیاست دان نہیں، بلکہ ایک معلمہ ہیں جس کی جھلک ان کی تقریروں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ فلوریڈا کے علاقے ٹامپا میں ریپبلیکن نیشنل کنونشن کے موقع پر کی گئی ان کی ایک تقریر سے تعلیم کے ساتھ ان کی گہری وابستگی کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ، “میں واپس سٹینفرڈ یونیورسٹی جاؤں گی اور بخوشی اس کی فیکلٹی ممبر بن جاؤں گی۔ اور ظاہر ہے، میں اس ٹکٹ کی مدد کے لئے جو کچھ کر سکتی ہوں، وہ کروں گی۔ لیکن میری زندگی پالو آلٹو میں ہے۔ میرا مستقبل میرے سٹینفرڈ کے طلبہ اور عوامی خدمات کے وہ امور ہیں جو میرے نزدیک اہمیت کے حامل ہیں، جیسے تعلیمی اصلاحات”۔