بے نظیر بھٹو پہلی خاتون تھیں جو دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک کی حکمران بنیں۔ اُن کا شمار جنوبی ایشیا کے انتہائی بااثر رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو، 21 جون 1953 کو پاکستانی شہر کراچی میں پیدا ہوئیں اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی بنیاد رکھی اور 1971 سے 1977 تک وزیراعظم رہے۔ پاکستان میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بے نظیر بھٹو اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ چلی گئیں۔ 1969 سے 1973 تک وہ ریڈکلف کالج اور پھر ہاورڈ یونیورسٹی میں زیرتعلیم رہیں جہاں سے انہوں نے ‘کمپیریٹِو گورنمنٹ’ میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ برطانیہ چلی گئیں جہاں 1973 سے 1977 تک وہ اوکسفرڈ میں زیرِتعلیم رہیں اور 1976 میں اوکسفرڈ یونین کی صدر بھی بنیں۔ یہاں سے انہوں نے انٹرنیشنل لاء اینڈ ڈپلومیسی کا کورس مکمل کیا۔
بے نظیر بھٹو، 1977 میں پاکستان واپس آئیں تو جنرل محمد ضیاء الحق کی زیرقیادت فوجی کارروائی میں اُن کے والد کی حکومت کی برطرفی کے بعد اُنہیں گھر پر نظربند کر دیا گیا۔ ایک سال بعد 1978 میں جنرل ضیاء الحق، صدر بن گئے اور ذوالفقار علی بھٹو کو ایک مخالف کے قتل کا حکم دینے کے الزام میں سزا کے طور پر پھانسی دے دی گئی۔ بے نظیر بھٹو کو پی پی پی کی قیادت والد سے ورثے میں ملی۔ 1980 میں ان کے خاندان کو ایک اور سانحہ اس وقت پیش آیا جب بے نظیر بھٹو کے بھائی شاہنواز بھٹو کو ریویرا میں واقع اُن کے اپارٹمنٹ میں قتل کر دیا گیا۔ اہلِ خانہ کا اصرار تھا کہ انہیں زہر دیا گیا لیکن اس پر کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا گیا۔ ایک اور بھائی مرتضیٰ بھٹو، 1996 میں (جب ان کی بہن برسراقتدار تھیں) پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں انتقال کر گئے۔
بے نظیر بھٹو کو اپنی والدہ کے ہمراہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی شریک چیئرپرسن منتخب کر لیا گیا اور بالآخر 1998 کے انتخابات میں وہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئیں۔ اُس وقت اُن کی عمر کی 35 سال تھی اور یوں وہ دنیا کی سب سے کم عمر سربراہِ مملکت اور کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیرِاعظم قرار پائیں۔ تاہم، 20 ماہ بعد انہیں صدر غلام اسحاق خان کے احکامات کے تحت کرپشن کے الزامات پر اس عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ 1993 میں وہ دوبارہ منتخب ہوئیں لیکن اس بار بھی 1996 میں صدر فاروق لغاری نے اِنہی الزامات کے تحت انہیں اُن کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
جب وہ وزیراعظم تھیں تو یونینز کے ساتھ مذاکرات میں ان کی بے لچک سوچ کی وجہ سے اکثر انہیں “آہنی خاتون” یا “آئرن لیڈی” کا نام دیا جاتا تھا۔ انہوں نے آزاد منڈی کی مختلف معاشی پالیسیوں پر کام کیا جن میں ڈی ریگولیشن، افرادی قوت کی لچکدار منڈیاں، اور نجکاری قابل ذکر ہیں۔ تاہم بڑھتی بیروزگاری اور افراطِ زر کے باعث ان کی معاشی پالیسیاں عوامی مقبولیت کھو بیٹھیں۔ وہ ایک طویل عرصے تک برطانیہ اور دبئی میں اپنی مرضی سے جلاوطنی کی زندگی گزارتی رہیں اور اسی دوران 1999 میں انہیں کرپشن کے الزامات پر تین سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ بیرون ملک رہتے ہوئے بھی انہوں نے پارٹی کی قیادت کا سلسلہ جاری رکھا اور 2002 میں پارٹی رہنما کی حیثیت سے ان کی مزید توثیق کر دی گئی۔ بے نظیر بھٹو ، 18 اکتوبر 2007 کو اُس وقت پاکستان واپس آئیں جب صدر پرویز مشرف نے انہیں کرپشن کے تمام الزامات سے بری قرار دے دیا اور یوں اُن کی واپسی اور اقتدار میں شراکت کے ممکنہ معاہدے کی راہیں کھل گئیں۔
جلاوطنی کے آٹھ سال بعد بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی اس بناء پر المناک رہی کہ ان کے استقبالی جلوس پر خودکش حملہ ہو گیا جس میں 136 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اُن کی اپنی جان محض اس بناء پر بچ گئی کہ جس لمحے خودکش حملہ آور نے اپنا وار کیا وہ جھک کر اپنی بکتر بند گاڑی کی اوٹ میں چلی گئیں۔ 3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی جس پر بے نظیر بھٹو نے اسے ملکی تاریخ کا “سیاہ ترین دن” قرار دیا اور عوامی مظاہروں کے ذریعے اپنے حامیوں کو سڑکوں پر لانے کی دھمکی دے دی۔ 9 نومبر کو بے نظیر بھٹو کو اپنے گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور چار دن بعد اُنہوں نے پرویز مشرف سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ ہنگامی حالت دسمبر 2007 میں ختم کی گئی۔
27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ایک انتخابی جلسے کے بعد ایک حملہ آور نے بے نظیر بھٹو پر گولیاں چلانے کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا دیا اور اس کارروائی میں بے نظیر بھٹو اپنی جان کی بازی ہار گئیں۔وہ اپنے پیچھے بٹا ہوا ورثہ چھوڑ گئیں۔ ان کے پورے کیریئر کو مسلم دنیا کی خواتین اور انتہاپسندی کے خلاف عالمی جنگ کے حوالے سے ایک شاندار فتح تصور کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کی خاطر اُن کی کوششیں اور تمامتر جدوجہدتادیر باقی رہنے والا وہ ورثہ ہے جس پر اُن کے حریف بھی انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آج پاکستان میں کئی یونیورسٹیاں اور عوامی عمارات بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب ہیں جبکہ ان کا کیریئر کئی لوگوں کے لئے ایک مثال کی مانند ہے جن میں نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی بھی شامل ہیں۔