الیکشن ایکٹ (2017)، خواتین کو بطور ووٹر یا امیدوار، انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی کسی بھی کوشش کی ممانعت کرتا ہے۔ ایکٹ کے تحت سیاسی جماعتیں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات میں کم ازکم پانچ فیصد خواتین امیدوار نامزد کرنے کی پابند ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں تمام بڑی قومی جماعتیں اس کم سے کم فیصد تناسب کے قریب قریب رہیں جبکہ 45فیصد سے زائد سیاسی جماعتوں نے کسی ایک بھی خاتون کو بطور امیدوار نامزد نہیں کیا۔ کئی جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے ایکٹ کی پوری طرح پاسداری نہیں کی۔ جن جماعتوں نے اس پر عمل کیا، انہوں نے بھی محض کوٹہ پورا کرنے کے لئے خواتین امیدواروں کو نامزد کیا۔ حکمت عملی کے اعتبا رسے زیادہ تر خواتین کو ایسے حلقوں میں ٹکٹ دئیے جاتے ہیں جہاں پارٹی کے جیتنے کا کوئی امکان نہ ہو۔ ان میں سے کئی امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم ہی نہیں چلائی۔ انتخابات میں مقرر کئے گئے اس کوٹہ کے علاوہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں خواتین کے لئے 60 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔
ملکی سطح پر قانونی فریم ورک سے قطع نظر، سال 2000 میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیش کئے گئے مقامی حکومت کے منصوبہ میں ضلع، بلدیہ اور یونین کونسلوں کی سطح پر خواتین کے لئے 33 فیصد کوٹہ متعارف کرایا گیا جس کی بدولت ملک بھر میں تقریباً ایک لاکھ خواتین نے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ 2010 میں قومی اسمبلی کی جانب سے آئینِ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبائی حکومتوں کو زیادہ وسائل مل گئے اور قانون سازی کے زیادہ اختیارات ان کے حصے میں آ گئے۔ تب سے تمام صوبوں میں مقامی حکومت کے قانون، جو 2013 میں پیش کیا گیا، کے تحت خواتین کے لئے مخصوص نشستوں کے نظام پر عمل کیا جا رہا ہے لیکن ہر صوبے میں اس کی کامیابی کا رجحان مختلف ہے۔ مثال کے طور پر 2015 کے کنٹونمنٹ کے انتخابات میں کل 199 نشستوں میں سے صرف دو، پر خواتین کو منتخب کیا گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ 33 فیصد کوٹہ پورا نہیں ہو پایا۔ بلوچستان، خبیرپختونخوا اور دیگر علاقوں، جہاں لوگوں کی سوچ نسبتاً زیادہ قدامت پسندانہ ہے، مخصوص نشستوں پر خواتین کے انتخاب میں حصہ لینے کا تناسب اس حد تک کم ہے کہ جو خواتین کونسلر بنیں، ان میں زیادہ تر بلامقابلہ منتخب ہوئیں۔ پنجاب اور سندھ میں، جہاں خواتین کی شمولیت دیگر دو صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، خواتین کونسلروں کا کوٹہ کم کر کے بالترتیب 15 اور 22 فیصد کر دیا گیا۔
ووٹ دینے پر خواتین کی حوصلہ افزائی
پاکستان میں خواتین ووٹرز کی تعداد میں اضافہ کے باوجود، اصناف کے درمیان فرق بھی باعث تشویش ہے۔ 2013 کے انتخابات میں خواتین ووٹرز کا تناسب 43.62 تھا جو 2018 کے انتخابات میں کم ہو کر 39.78 فیصد رہ گیا۔ خواتین جب زیادہ تعداد میں ووٹ دیتی ہیں تو سیاسی جماعتیں بھی خواتین کی خودمختاری سے متعلق امور پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ تاہم خواتین کی خودمختاری محض پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد بڑھانے کا نام نہیں۔ پاکستان نے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں شامل کرنے کا جو طریقہ اپنایا ہے اس سے قانون سازی میں واقعی خواتین کا کردار بہتر ہو گا لیکن اس کے نتیجے میں ضروری نہیں کہ خواتین کے مسائل پر بہتر قانون سازی ہو گی یا ان خواتین کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے گا جن کے سیاسی تعلقات اور رابطے نہیں ہیں۔ حقیقی تبدیلی لانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اس حد تک گنجائش پیدا کرے کہ ان خواتین کی بھی امیدوار بننے پر حوصلہ افزائی ہو، جن کے کوئی سیاسی تعلقات یا روابط نہیں ہیں۔ صنفی برابری کی راہ ہموار کرنے کے لئے قوانین کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن حقیقی تبدیلی سیاسی جماعتوں کے اندر سے آنی چاہئے۔
تحریر: فزاء بتول، ریسرچ و سماجی کارکن
بلاگ بشکریہ
www.southasianvoices.org