لوگ کہتے تھے اکیسویں صدی میں دنیا بدل جائے گی، حقوقِ نسواں کا ایک بالکل نیا رخ ہمیں دیکھنا نصیب ہو گا۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ اصل میں عدم مساوات کے رنگ ڈھنگ بدل گئے ہیں۔ پہلے سے زیادہ وسائل اب خواتین کی پہنچ میں اور ان کے کنٹرول میں ہیں، بعض اہم عہدوں پر خواتین فائز ہو گئی ہیں، سیاسی تحریکوں میں تیزی آ گئی ہے، سیاسی عمل میں شمولیت بھی بڑھ گئی ہے، لیکن فیصلہ سازی آج بھی مردوں کے ہاتھ میں ہے، گھر ہوں یا ادارے، رکاوٹوں کی دیواریں آج بھی اتنی ہی بلند ہیں۔

لہٰذا، بالکل نئے رخ کا مطلب یہی ہوا کہ سیاسی قوت سے کچھ سروکار نہیں ہونا چاہئے البتہ کچھ وسائل آپ کی پہنچ اور کنٹرول میں آ گئے ہیں اور تھوڑی بہت تبدیلی بھی آ گئی ہے۔ اس کنٹرول سے ہٹ کر، ہمارے معاشرے کے دہرے معیارات آج بھی یہی باور کراتے ہیں کہ عورت صرف مرد کے لئے بنی ہے،  اور چاہے وہ کتنی عالم فاضل کیوں نہ ہو جائے، کتنی دنیا دیکھ لے، اور کتنا ہی تجربہ حاصل کر لے، خودمختاری (فیصلہ سازی کی سیاسی قوت) اور حقوق کے معاملے میں وہ آج بھی وہیں  کی وہیں کھڑی ہے۔

محض کچھ استثنائی مثالوں کو آپ بہرحال خارج نہیں کر سکتے جہاں مردوں نے حد سے بھی آگے جا کر خواتین کی خدمات کو تسلیم کیا اور اپنے تئیں پوری کوشش بھی کی کہ انہیں وہ مقام ملے جس کی وہ حقدار ہیں، وہ بااختیار ہوں اور سیاسی و سماجی لحاظ سے آزاد ہوں۔ لیکن یہ محض “استثنائی مثالیں” ہیں، جبکہ ہم اس پورے معاشرے کی بات کر رہے ہیں جہاں تعداد میں خواتین نصف سے بھی زیادہ  ہیں۔

ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ خواتین کو اپنی بات کہنے کا موقع نہیں ملتا۔ جی ہاں، واقعی ملتا ہے اور اس کا حق بھی وہ بخوبی نبھاتی ہیں۔ ٹی وی کے کسی ٹاک شو کو دیکھ لیں، یا خواتین سیاسی رہنماؤں، مختلف برانڈز کی نمائندگی کرنے والی خواتین، فیشن ڈیزائنرز اور اداکاراؤں کو دیکھ لیں۔ البتہ  اس کا دوسرا رخ بھی ہے، مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا احساس، اور مردوں میں  اس احساس کی شدید کمی ہے، خاص طو رپر جب خواتین کسی معاملے پر پختہ اور ٹھوس انداز میں اپنی رائے دیں تو کون سنتا ہے، یا پھر یہی جواب ملتا ہے کہ “میں تو کچھ بھی کہہ سکتا ہوں”۔

چند ماہ پہلے، “میرا جسم، میری مرضی” پر ہونے والی بحث کو ہی لے لیں۔ اس میں خواتین کا اپنا ایک موقف تھا جبکہ دوسری طرف کچھ پڑھے لکھے، صاحب علم مرد حضرات تھے جو کھلم کھلا اسے “شرمناک” قرار دے رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر دونوں اطراف سے ایک یلغار سی برپا رہی۔ ایک طرف خواتین تھیں جن کا موقف تھا کہ جسم ہمارا ہے تو اس پر مرضی بھی ہماری ہونی چاہئے اور دوسری طرف کچھ جانی مانی شخصیات تھیں، ایک شوبز کی مایہ ناز شخصیت اور دوسری میدان سیاست کی ممتاز شخصیت، جن کے نزدیک یہ انتہائی شرمناک بات تھی۔ دونوں میں سے کوئی بھی فریق  یہ بات ماننے کو ہی تیار نہ تھا کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور مل جل کر رہنا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ایسے لگتا تھا جیسے ہم زمانہ جاہلیت کے کسی معاشرے کے باسی ہوں، اور سکہ رائج الوقت ہے، “جس کی لاٹھی، اس کی بھینس”۔

اس ساری بحث کا مقصد مردوں کو نیچا دکھانا یا خواتین کو مظلوم بنا کر پیش کرنا نہیں جن کے ساتھ صرف اور  صرف امتیاز برتا جاتا ہے، بلکہ یہ اس “قوت اور فیصلہ سازی”  کی بات ہو رہی ہے، جس پر کئی نسلوں سے خواتین  کے ساتھ وعدے وعید کئے جا رہے ہیں، جس پر کئی دہائیوں سے سیاسی تحریکیں چلتی رہی ہیں۔  یہ ان حقوق نسواں کی بات ہو رہی ہے جن پر صرف معاشرے نے ہی تحریکیں نہیں چلائیں بلکہ ریاست نے بھی کوششیں کی ہیں (ظاہر ہے دنیا کو بھی منہ دکھانا ہے) لیکن جن کا وجود آ ج بھی کہیں دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔ بات یہ نہیں ہے کہ خواتین فیصلہ سازی کے کسی منصب تک نہیں پہنچ پاتیں، اصل مدعا یہ ہے کہ یہ نعمت کوئی لاکھ بھر خواتین میں سے ایک آدھ خاتون کے حصے میں آ جاتی ہے، اور اس ایک آدھ خاتون کو بھی جو ذمہ داریاں ملتی ہیں وہ محض ایسے شعبوں تک محدود ہوتی ہیں کہ ظاہر داری کا بھرم رہ جائے اور ہم دنیا کو دکھا سکیں کہ ہمارے ہاں بھی خواتین فیصلے کرتی ہیں۔ اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ “سیاسی قوت” کے حامل کسی عہدے تک پہنچنے والی خواتین کی تعداد برائے نام رہ جاتی ہے، یعنی ایسی خواتین جن کے ہاتھ میں کوئی ایسے فیصلے کرنے کا اختیار ہو جس سے خواتین اور لڑکیوں کی حالت بدل سکے، معاشرے کے نچلے طبقات میں رہنے والی ان خواتین اور لڑکیوں کا کچھ بھلا ہو سکے جنہیں محض اچھے فیصلے کرنے والی چند خواتین کی نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ اچھی خواتین لیڈروں کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ ؂

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ….

 

تحریر:

منزہ فاطمہ

Leave a comment

Skip to content