علاقائی، قومی اور عالمی سطحوں پر خواتین میں اب یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ صنعت، حکومت، تعلیم، انجینئرنگ، صحت وغیرہ جیسے شعبوں کی قیادت میں ان کی نمائندگی بھی موجود ہے۔ خواتین اب ان تمام روایتی حدود سے آگے نکلنے کے لئے پرعزم ہیں جن کی وجہ سے وہ صلاحیت اور مہارت ہونے کے باوجود بھی قیادت کے عہدوں تک پہنچنے سے محروم رہیں۔ شہناز وزیر علی، مریم نواز، شیریں مزاری، شیری رحمان، حنا ربانی کھر، ڈاکٹر عذرا پچوہو، زرتاج گل، یہ سب خواتین رہنما ان چند مثالوں میں شمار ہوتی ہیں جنہوں نے دنیا پر اپنا وجود ثابت کر دکھایا ہے۔
خواتین کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ مردوں کی نسبت جلدی اپنے آپ کو تبدیل کر لیتی ہیں۔ وہ اپنے ماتحتوں کے لئے ایک مثالی کردار بن کر رہتی ہیں۔ وہ اپنے عملے پر اپنا ایک تاثر چھوڑتی ہیں اور اپنی ٹیم کی تیاری پر خوب محنت کرتی ہیں۔ وہ اپنی ترقی اور بہتری پر بہت زیادہ سوچ بچار کرتی ہیں۔ خواتین رہنما ترقی اور بہتری کے اس راز کو پا چکی ہیں کہ اس کے لئے مل کر چلنا پڑتا ہے اور یہ ہر تعلق میں کھرے پن کا تقاضا کرتی ہے۔ بیشتر خواتین لیڈروں کے نزدیک قیادت کا مقصد محض کارپوریٹ مقاصد کی تکمیل نہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کو بدل کر انہیں بہتر انسان بنانا ہوتا ہے۔ یہ خوبی تقریباً سبھی خواتین لیڈروں میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ اپنا کام مقررہ وقت پر مکمل کرنے کی عادی ہوتی ہیں۔
کسی بھی کمپنی کو رواں انداز میں چلانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ روزمرہ سرگرمیوں کو تنظیمی نقطہ نظر سے ترتیب وار مکمل کیا جائے۔ خواتین لیڈر اپنے اداروں میں ایسا ماحول پیدا کرتی ہیں جو سب کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور جس میں سب لوگ ایک سازگار ماحول میں اپنا بھرپور حصہ ملاتے ہیں۔ ماحول اگر محض اوپر سے نیچے کی طرف چلنے والے نظام مراتب کا پابند ہو تو کوئی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ کون سا کارکن یا مینجر کتنا تجربہ کار اور باصلاحیت ہے اور چیزوں کی کس قدر سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔ خواتین لیڈر عام طور پر اپنے اداروں کے ماحول کو نظام مراتب کا پابند نہیں بناتیں۔ ہم جس دور میں رہ رہے ہیں، اس میں قیادت کی سرگرمیوں میں خواتین کو برابر شریک بنائے بغیر کسی بھی ادارے کا کاروبار عمدہ طریقے سے چلانا ممکن نہیں۔
خواتین اپنا ایک نقطہ نظر دیتی ہیں جو اداروں اور ٹیموں کو باہمی تعاون کے ساتھ مقابلے کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی راہ دکھاتا ہے۔ کچھ بنیادی اوصاف اکیسویں صدی میں کام کے ماحول کے لوازمات میں شمار ہوتے ہیں، مثلاً آپ مل کر کام کر سکیں، خیرخواہی پر مبنی تعلقات استوار کر سکیں، اور ابلاغ کر سکیں یا اپنی بات دوسروں کو سمجھا سکیں۔ یہ تمام خوبیاں خواتین کا طرہ امتیاز ہیں اور ایک ایسا ماحول اور معاشرہ قائم کرنے میں مدد دیتی ہیں جو زیادہ خوشحال ہوتا ہے۔ گھر کے اندر اور کام کی جگہ پر سماجی تبدیلی کے عمل کو تیز بنانے کے لئے خواتین کی رہنمائی بہت ضروری ہے۔
کام اور گھر کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کا ہنر خواتین سیاست دانوں میں بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے جنہیں دیکھ کر یہ امید اور بڑھ جاتی ہے کہ ایک شاندار مستقبل ہمارا منتظر ہے۔ قیادت میں صنفی برابری اس بناء پر اہم ہے کہ قیادت جب تک ہر طرح کے نقطہ ہائے نظر کو سامنے نہیں رکھے گی، حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ڈولی پارٹن کا قول ہے کہ “اگر آپ کا عمل ایک ایسے ورثے کو جنم دیتا ہے جو دوسروں کو مزید بڑھ کر خواب دیکھنے، مزید سیکھنے، مزید کام کرنے اور مزید بہتر بننے پر مائل کرے، تو آپ ایک شاندار لیڈر ہیں”۔ ہماری اس دنیا میں مختلف صنعتوں میں کام کرنے والی خواتین ملازمین کا فیصد حصہ مختلف شعبوں میں خواتین کی نمائندگی کی علامت ہے۔ ماضی میں خواتین کو سیاست، کاروبار، تعلیم، انجینئرنگ، سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ میں بھرپور نمائندگی نہیں ملتی تھی۔ لیکن یہ صورتحال مسلسل بدل رہی ہے۔
:تحریر
امبر فاروق