پاکستان میں ایک شعبہ ایسا ہے جس میں تحریکِ نسواں یا خواتین کی تحریک بڑی حد تک کامیاب رہی ہے اور وہ ہے خواتین کی سیاسی شمولیت۔ عائشہ خان نے 2018 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ‘The Women’s Movement in Pakistan: Activism, Islam and Democracy’ میں بحیثیت مجموعی خواتین کے مسئلے پر بات کی ہے لیکن زیرِنظر تحریر میں صرف خواتین کی سیاسی شمولیت سے متعلق پہلوؤں کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔
اس کتاب میں باقاعدہ تحقیق کے انداز میں پاکستان کی حالیہ تاریخ کی ایک سوانح مرتب کی گئی ہے۔ ایک چیز جو صحیح معنوں میں قابل ذکر ہے، وہ ہیں ‘ویمنز ایکشن فورم’ (ڈبلیو اے ایف) سے وابستہ حقوقِ نسواں پر کام کرنے والی کئی خواتین کے انٹرویوز۔ یہ فورم ایک ایڈووکیسی گروپ ہے جو 1980 کی دہائی سے خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم ہے۔ معروضی طرزِتحریر پر مبنی اس کتاب میں تحریکِ نسواں کی کامیابیوں کو بڑے عمدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس راہ میں بے پناہ مشکلات حائل تھیں لیکن عملی اور تدریسی دونوں طرح کی تحقیق کو آپس میں جوڑ کر اصل لوگوں کی زبان میں اس کی کوتاہیوں کو زیرِبحث لایا گیا ہے۔
تاریخ پر نظر دوڑائیں تو 1947 کےدنوں میں ہی مقننہ کی خواتین ارکان نے سیاسی شمولیت کا مطالبہ اٹھا دیا تھا اور آئین ساز اسمبلی میں پانچ فیصد مخصوص کوٹہ کی تجویز سامنے رکھ دی تھی۔ اسی مطالبے کی بناء پر 1956 کے آئین میں خواتین کے لئے 10 نشستیں مخصوص کی گئیں لیکن اس کو عملی شکل نہ مل سکی کیونکہ انتخابات ہی نہیں ہوئے۔ 1962 کے آئین میں خواتین کے لئے بالواسطہ انتخاب کے ذریعے چھ نشستیں مخصوص کی گئیں۔ 1973 کے آئین میں ایک بار پھر بالواسطہ انتخاب کے ذریعے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لئے پانچ فیصد نشستیں مخصوص کی گئیں۔ 1985 میں خواتین کی حیثیت پر تحقیقاتی کمیشن نے دیگر مطالبات کے ساتھ ساتھ خواتین کے لئے 20 فیصد مخصوص نشستوں کی سفارش بھی کی۔
1985 کے غیرجماعتی انتخابات میں قومی اسمبلی کی 20 نشستیں خواتین کے لئے مخصوص تھیں۔ تاہم 1990 میں یہ دفعہ اس وقت بے اثر ہو گئی جب 1988 کی منتخب اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں اور اس کے بعد اگلے 12 سال تک خواتین کے لئے کوئی نشستیں مخصوص نہ تھیں۔
ویمنز ایکشن فورم اور عورت فاؤنڈیشن جیسی ایڈووکیسی پر کام کرنے والی مختلف این جی اوز سیاسی زندگی میں خواتین کی شمولیت کے وسیع تر ایجنڈا پر سرگرم رہی ہیں۔ اس مہم کے دوران جہاں بحیثیت ووٹر خواتین کے ٹرن آؤٹ میں اضافہ،خواتین کے لئے جنرل نشستوں کے ٹکٹوں میں اضافہ اور سیاسی جماعتوں میں خواتین ونگ کے فروغ جیسے مطالبات کئے گئے وہیں خواتین کے لئے مخصوص نشستوں کی بحالی سب سے اہم مطالبہ رہی جس کے ساتھ مقامی حکومتوں میں بھی خواتین کے کوٹہ کا مطالبہ کیا گیا۔
خواتین کی سیاسی شمولیت پر مسلسل ایڈووکیسی مہم پر بڑی حد تک مثبت ردعمل دیکھنے میں آیا اور 01-2000 کے بلدیاتی انتخابات میں مقامی حکومت کی تینوں سطحوں پر 33 فیصد نشستیں خواتین کے لئے مختص کر دی گئیں جبکہ 2002 کے عام انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی 17.5 فیصد نشستیں خواتین کے لئے مخصوص تھیں۔ یہ جنرل نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین کے علاوہ تھیں۔
مقامی سطح پر زیادہ وسیع اثرات مرتب ہوئے جہاں تقریباً 40 ہزار خواتین مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئیں۔ تاہم 2005 کے بلدیاتی انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشستیں کم ہو کر 24 ہزار کے لگ بھگ رہ گئیں کیونکہ حکومتی فیصلے کی روشنی میں یونین کونسلوں کا سائز تقریباً آدھا رہ گیا تھا۔ 2008 میں جمہوریت کی واپسی کے بعد مقامی سطح پر انتخابی عمل باقاعدہ نہیں رہا اور خواتین کی نمائندگی بڑی حد تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں رہ گئی ہے۔
مصنفہ کے بقول اگرچہ خواتین کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ‘ناتجربہ کار’ ہوتی ہیں لیکن ان اسمبلیوں میں ان کی شمولیت سے “کارروائی میں ایک نمایاں پہلو کا اضافہ” ہوا ہے۔ 07-2002 کی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین نے مردوں کی نسبت زیادہ باقاعدگی کے ساتھ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں حصہ لیا۔ قانون سازی کے میدان میں ان کی کارکردگی ان کے تناسب کے مقابلے میں زیادہ رہی۔ مصنفہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ خواتین نے “نجی ارکان کے تقریباً نصف بل اور ایک تہائی قراردادیں پیش کیں”۔ 2008 کے بعد آنے والی اسمبلیوں میں بھی یہی رجحان دیکھنے میں آیا حالانکہ جنرل نشستوں پر خواتین کی تعداد کم ہو رہی تھی۔
قانون سازی کے میدان میں خواتین کی یہ کارکردگی بلاشبہ ان کی کامیابی ہے حالانکہ مرد ارکان انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتے، انہیں آزادانہ حیثیت میں مالی وسائل کی کمی درپیش رہتی ہے، پارٹی کی طرف سے انہیں بھرپور مدد نہیں ملتی اور بعض اوقات تو کھلم کھلا امتیاز اور ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین نے خاص طور پر بعد از 2008 کے دور میں مختلف جماعتوں پر مشتمل ویمن کاکس کے ذریعے حقوق نسواں، انسانی حقوق اور جمہوریت سے متعلق قانون سازی پر بھرپور طریقے سے کام کیا ہے۔ خواتین نے غیرت کے نام پر قتل، ریپ اور زناء کے قوانین سمیت مختلف تبدیلیوں کے لئے لابی سرگرمیاں کیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل (2)25 کے ذریعے پاکستان سی ای ڈی اے ڈبلیو کے تحت کئے گئے وعدوں کو تسلیم کر چکا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد قانون سازی کا زیادہ تر کام صوبوں کو منتقل ہو گیا ہے۔
مقننہ کی خواتین ارکان نے گھریلو تشدد کی روک تھام سے متعلق قوانین، جنسی ہراسانی کے قوانین، خواتین مخالف سرگرمیوں کو رکوانے کے قانون، تیزاب کے جرائم پر قوانین، ہندو شادی کے قانون، شادی کے لئے یکساں عمر کے تعین کے قانون وغیرہ کو منظور کرانے کے لئے بھی بھرپور طریقے سے کام کیا۔ بیشتر صورتوں میں خواتین نے یہ بل نجی ارکان کے طور پر پیش کئے کیونکہ ان کی جماعتیں ان پر جوابی ردعمل کے ڈر کے مارے ان کی کھلم کھلا حمایت نہیں کرنا چاہتی تھیں اور یوں مختلف جماعتوں کی خواتین ارکان کی یکجہتی کی بدولت وہ یہ بل منظور کرانے میں کامیاب رہیں۔
کتاب کے آخری باب میں اس موضوع پر دلچسپ انداز میں بحث کی گئی ہے کہ آیا حقوقِ نسواں کی سرگرمیوں کو تحریک کا نام دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ایک بھرپور تاثر یہی ملتا ہے کہ گزشتہ چالیس سال کے عرصے میں خواتین نے ایک طویل سفر طے کر لیا ہے۔ ایک وقت تھا جب بڑے اخبارات کے مدیران حقوقِ نسواں پر ویمنز ایکشن فورم کے بیانات چھاپنے سے انکار کر دیتے تھے اور آج یہ دور ہے جب حقوقِ نسواں ایک جائز و قانونی قومی ایجنڈا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خواتین اور لڑکیوں پر بڑھتے تشدد اور انہیں جنسی ضرر پہنچانے جیسی بے پناہ مشکلات اپنی جگہ موجود ہیں۔ خواتین اپنے حقوق کو دبانے کے لئے مذہب کے پسند ناپسند پر مبنی استعمال کے خلاف بھی نبردآزما ہیں۔
عائشہ خان کا کہنا ہے کہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ 1980 کی دہائی کے دوران مغربی حکومتیں آمریت اور افغان جہاد کی حمایت کرتی رہیں، اور دوسری جانب بہت کم تعداد میں ایسی خواتین اور ان کی این جی اوز کو ان کی حمایت نصیب ہوئی جو ایک آمر کی اسلامائزیشن پر مزاحمت کر رہی تھیں (البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ویمنز ایکشن فورم نے کبھی بھی غیرملکی مالی امداد قبول نہیں کی)۔
یہ سالہا سال پر محیط ایک طویل اور کٹھن جنگ رہی ہے۔ ریاست پاکستان میں مردانہ سوچ اور اخراج پر مبنی تعصبات کے باوجود خواتین ریاست کے سامنے اپنے مطالبات رکھنے سے پیچھے نہیں ہٹیں اور انہوں نے اس کی پالیسیوں اور اس کے قانونی فریم ورک میں برتے جانے والے امتیاز کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ جرگہ کی غیررسمی شکل میں موجود ادارے اور غیرریاستی کرداروں کا تشدد خواتین کے لئے اس سے بھی بدتر رہا ہے۔ بہرحال ریاست کو خواتین کی توقعات پر پورا اترنا ہے، اور جب تک ایسا نہیں ہو جاتا وہ اپنی برابری اور خودمختاری کی جدوجہد جاری رکھیں گی۔
تحریر: فوقیہ صادق خان
ماہر معاشرتی علوم
بشکریہ: دی نیوز انٹرنیشنل