خواتین جب بہتر کارکردگی دکھاتی ہیں تو معیشتوں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور ظاہر ہے، اس سے ملکوں کی کارکردگی میں بھی بہتری آتی ہے۔ یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب سماجی، معاشی اور سیاسی میدان میں خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جائے۔ خواتین پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً نصف (48.8 فیصد) بنتی ہیں جس کا مطلب یہی ہوا کہ وہ واقعی ایک اہم اثاثہ اور اس ملک کی قوت ہیں۔ پاکستان میں لاتعداد ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں خواتین کو احساس دلایا گیا کہ وہ مردوں کی طرح برتر نہیں اور صنف، معاشیات اور سیاسیات میں ہر جگہ انہیں عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑا۔ سیکھنے سکھانے کی عمر میں جب لڑکیوں کی تربیت اس طرح نہیں کی جائے گی جس طرح لڑکوں کی جاتی ہے، تو اس سے یقیناً ملک کا مستقبل متاثر ہو گا۔ کسی بھی خاتون کو موقع دے دیا جائے تو وہ کچھ بھی کر کے دکھا سکتی ہے، لیکن کام کی جگہ پر ہر لحاظ سے خواتین کو عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یعنی تنخواہ برابر نہیں ملتی، ان کے مرد ساتھیوں کے دلوں میں ان کے بارے میں کئی تعصبات پائے جاتے ہیں، انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، صنف کے لحاظ سے دقیانوسی خیالات کو بڑھایا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ قصہ مختصر، فہرست بہت طویل ہے۔

سماجی خدمات سے فائدہ اٹھانے کی بات ہو یا مالی مواقع کی، یا پھر فیصلہ سازی کی، پاکستان میں خواتین کو ہر جگہ بند دروازوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر خواتین لوگوں کی مردانہ سوچ اور تعصبات سے بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور انتہاپسندانہ سوچ انہیں مزید تقویت دیتی ہے۔ پاکستان میں خواتین پرانی روایات کی پابند زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو انہیں میدان سیاست میں قدم نہیں جمانے دیتیں۔

حکومتی امور ہوں یا یا پارلیمان یا پھر عام شہری زندگی، ہر جگہ خواتین کی نمائندگی آج بھی کم ہے۔ خواتین اگر مدمقابل بن کر میدان میں آئیں تو جابجا ان کے لئے وہی گھسے پٹے جملے استعمال کئے جاتے ہیں اور سیاسی حریف انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں اور سینہ تان پر ان کے بارے میں جو، جی میں آئے، کہہ جاتے ہیں۔ معاشرے کو سہل اور پرسکون انداز میں چلانے کے لئے ازحد ضروری ہے کہ خواتین کو مختلف سماجی مراتب پر فائز کیا جائے اور انہیں پوری خوشدلی سے قبول کیا جائے۔ آج جو ممالک ترقی یافتہ اور جدید اقوام کی صف میں نظر آتے ہیں، انہوں نے اپنے ہاں صنفی امتیاز اور عدم توازن کا خاتمہ کیا اور خواتین کو وہی حقوق دئیے جو مردوں کو حاصل تھے۔ ہمارے ہاں خواتین کے بارے میں عام دقیانوسی سوچ یہی بتاتی ہے کہ وہ کمزور اور نازک ہوتی ہیں، یعنی جسمانی طور پر اتنی فعال نہیں ہوتیں، وہ مردوں کی نسبت کمزور ہوتی ہیں، یہاں تک کہ وہ کیڑے مکوڑوں سے ڈر جاتی ہیں، وغیرہ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خواتین کو مردوں کے برابر مواقع دے دئیے جائیں تو وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کی مضبوط سفیر بن سکتی ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ صنف کے بارے میں ان گھسی پٹی باتوں سے پیچھا چھرائیں، اور آپ کی صنف کوئی بھی ہو، آپ کو پورا حق حاصل ہونا چاہئے کہ آپ بھی اپنے مستقبل کے بارے میں سہانے خواب سجائیں۔ خواتین کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھنا قطعاً روا نہیں، بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت کو محض ایک شے سمجھنا بند کریں اور اسے محض نسل کی بڑھوتری کا ذریعہ نہ بنائیں۔ آئیں، یہ مان لیں کہ خواتین بھی اتنی باصلاحیت ہیں کہ ستاروں پر کمند ڈال کے دکھا سکتی ہیں۔

تحریر:

یمنیٰ امجد

Leave a comment

Skip to content