آج کے اس جدید دور میں بھی اپنے آباؤ اجداد کی روش کو برقرار رکھتے ہوئے ہم نے عورتوں کو چار دیواری کی اس جیل میں بند کر کے رکھا ہوا ہے جسے ہم مکان کا نام دیتے ہیں۔ اس روش کو بدلنا ہو گا! ہماری اس دنیا میں جیسے جیسے ٹیکنالوجی میں بہتری آ رہی ہے، خواتین مسلسل پیچھے ہوتی جا رہی ہیں کیونکہ لوگ انہیں ان پڑھ سمجھتے ہیں۔ بعض صورتوں میں یہ بات درست بھی ہے کیونکہ ترقی پذیر ملکوں میں خاص طور پر خواتین کی تعلیم کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی جس طرح مردوں کو دی جاتی ہے۔ اس روش کو بدلنا ہو گا!

خواتین کی پسند و ناپسند کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے کیونکہ لوگ انہیں اس قابل ہی نہیں سمجھتے۔ اس روش کو بدلنا ہو گا! اپنی روزمرہ زندگی کے جھمیلوں میں ہمیں اپنے اردگرد ناانصافی کی دھند محسوس ہی نہیں ہوتی لیکن کئی خواتین کو یہ بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے وہ خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگتی ہیں۔ کئی عورتیں اپنی آنکھوں میں لاتعداد اونچے اونچے خواب سجا کے رکھتی ہیں لیکن وہ قدم آگے نہیں بڑھا پاتیں کیونکہ کہیں اُن کے گھر والے نہیں مانتے، کہیں کسی کے ہمسایوں کو اعتراض ہوتا ہے اور کہیں اگر وہ محنت کرتی ہیں تو کسی کو اُن کا حوصلہ بڑھانے کی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ وجوہات عام لوگوں کو شاید چھوٹی چھوٹی لگیں لیکن سچی بات یہی ہےکہ زندگی میں تنہائی کی ویرانیوں کو برداشت کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، اسی لئے ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں اور سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے تب جا کر کوئی اُن کا حوصلہ بڑھانے، اُن کے ساتھ مجبت سے پیش آنے اور اُن کی خدمات کا احترام کرنے پر آمادہ ہوتا ہے؟

ہماری کاوش کا مقصد خواتین کو بااختیار بنانا ہے، محض اس لئے نہیں کہ ہم چاہتے ہیں، بلکہ اس لئے کہ ہمیں کرنا ہو گا! دنیا میں 7 ارب لوگ بستے ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اور کسی کی بھرپور استعداد اور صلاحیت آپ اس وقت تک نہیں جان سکتے جب تک آپ انہیں موقع نہ دیں کیونکہ “قدم بڑھائے بغیر کسی کو کامیابی نہیں ملتی”۔ میں یہاں ایک خاتون کا ذکر کرنا چاہوں گی جس نے پاکستان کی خواتین کو راہ دکھائی اور اس خاتون کا نام ہے ملالہ یوسف زئی۔ ملالہ یوسف زئی اس نظام کے خلاف تھیں اور وہ خواتین کو برابر حقوق دلانا چاہتی تھیں یہاں تک کہ اس کی خاطر وہ عسکریت پسند گروہوں کے سامنے بھی کھڑی ہو گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انہی عسکریت پسندوں کی گولی کا نشانہ بن گئیں لیکن اس گھڑی میں پوری دنیا اُن کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ یہی وہ گھڑی تھی جس نے انقلاب برپا کر دیا، صرف پاکستانی خواتین کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی خواتین کے لئے۔ دعائیں رنگ لے آئیں اور ملالہ پھر سے صحت یاب ہو گئیں۔

گولی ملالہ کا کچھ نہ بگاڑ پائی اور انہوں نے دنیا پر ثابت کر دکھایا کہ مرد اور عورت مل جائیں تو وہ کتنے طاقتور بن جاتے ہیں۔ اسی کو اپنے لفظوں میں انہوں نے یوں بیان کیا کہ، “ایک بچہ، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا کو بدل سکتا ہے!”

لیکن کوئی ایک دو نہیں، ایسی لاتعداد خواتین ہیں جن کی مثالیں ہمیں نئی راہیں دکھانے کے لئے موجود ہیں۔ ہمارا مستقبل ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے اور ہم اسی کا ثمر ہیں۔ خواتین کو تعلیم دلائیں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، انہیں اہمیت  دیں اور آگے لائیں، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ ماضی پر پچھتانے سے بہتر ہے کہ مستقبل کو بنائیں۔ آئیں اپنی اس کاوش کو آگے بڑھائیں۔

۔

:تحریر

عبدِ علی ایم عون نکوبار

Leave a comment

Skip to content