“میرے نزدیک، بہتر جمہوریت وہ جمہوریت ہے جس میں خواتین کو نہ صرف ووٹ دینے اور منتخب کرنے کا، بلکہ منتخب ہونے کا حق بھی حاصل ہو”۔ یہ خوبصورت الفاظ انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کی موجودہ ہائی کمشنر مچل بیچلیٹ کے ہیں، جو اس سے پہلے یو این ویمن کی سربراہ اور چلی کی وزیر دفاع اور صدر بھی رہ چکی ہیں۔
ماضی کی نسبت قانون سازی اور فیصلہ سازی میں خواتین کی شمولیت بڑھ گئی ہے جس کا بڑا سبب یہ بھی ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کے لئے نشستوں کا کوٹہ مخصوص کر دیا گیا ہے۔ کئی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی معتبر حیثیت بہتر بنانے اور اپنے جماعتی ڈھانچے میں جمہوری طریقوں کو فروغ دینے کے لئے خواتین ونگ بھی قائم کئے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی خواتین اعلیٰ سرکاری عہدوں تک پہنچنے میں بھی کامیاب رہی ہیں جس سے خواتین کی قیادت میں بھی بہتری آئی ہے۔
لیکن سیاست کی بات کریں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ خواتین کو برابر مواقع مل رہے ہیں اور ان کے ساتھ برابر سلوک کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی مردوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ 2019 میں قومی پارلیمان کی صرف 20.23 فیصد نشستیں خواتین کے پاس تھیں۔ اس کے علاوہ ملک کا سیاسی و سماجی کلچر ایسا ہے کہ سیاسی صلاحیت اور قابلیت کے اعتبار سے خواتین پیچھے رہ جاتی ہیں۔ “سرچ فار کامن گراؤنڈ” کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین سیاست دانوں اور خواتین سیاسی نمائندوں کو سیاسی طور طریقوں اور انتظامی فرائض و امور انجام دینے کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں دی جاتی۔
ملک کی روایتی سیاسی قوتوں نے خوب ردعمل دکھایا، ہدف تنقید بھی بنایا، لیکن بہرحال خواتین نمائندوں نے ہار نہیں مانی اور میدان سیاست کی اگلی قطاروں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں۔ یہ کہانی ہمارے بصیرت افروز قائد، بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی بہن، مادر ملت، محترمہ فاطمہ جناح سے شروع ہوتی ہے۔ ان کا دور مردوں کا دور تھا لیکن اپنی ہمت اور قابلیت کی بدولت انہوں نے لاتعداد خواتین کو متاثر کیا جو اپنے حق کی خاطر کھڑی ہوئیں اور جنہوں نے عدم مساوات اور سماجی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی۔ خواتین کی قیادت کی بات ہوتی ہے تو فوراً بے نظیر بھٹو کا نام بھی ذہن میں آتا ہے جو اپنی انتہائی منفرد شخصیت کی بدولت اپنی مثال آپ تھیں۔ بے نظیر بھٹو پہلی خاتون تھیں جو کسی مسلم اکثریتی ملک کی سربراہ مملکت بنیں اور جدید سیاست کے میدان میں ان کی اسی کامیابی نے دنیا بھر کی خواتین کا حوصلہ بڑھایا کہ وہ آگے آئیں، سیاست میں حصہ لیں اور تبدیلی کی آواز بن جائیں۔ دیگر بڑے ناموں میں شہناز وزیر علی، جن کا شمار پاکستانی سیاست کی اہم ترین شخصیات میں ہوتا ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری، پاکستان کی قومی اسمبلی کی پہلی خاتون قائد حزب اختلاف اور امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر شیری رحمان سمیت لاتعداد خواتین شامل ہیں۔
پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً پچاس فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر عورتیں دیہی علاقوں میں رہتی ہیں جہاں عام طور پر خواتین سماجی اور معاشی خودمختاری کے لئے بنیادی مہارتوں کی کمی کا شکار ہوتی ہیں لیکن دوسری جانب دیکھیں تو کمیونٹی سطح پر مل کر کام کرنے کی ایک نئی سوچ سامنے آ رہی ہے جس کی بدولت پاکستان کی سیاست و معاشرت میں نمایاں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ 2012 میں سابقہ فاٹا کے ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والی بادام زری اس وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئیں جب انہوں نے عام انتخابات میں حصہ لینے اور سیاست پر مردوں کے غلبے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔ وہ قبائلی کلچر سے تعلق رکھتی ہیں جہاں لوگوں کی تعلیم زیادہ نہیں اور اکثر خواتین کو مردوں کی سیاست میں بات کرنے یا اپنی آواز اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن بادام زری نے کسی رکاوٹ کی کوئی پرواہ نہ کی۔ ضلع چکوال کی زرمین اختر ایک اور خاتون ہیں جنہوں نے فرسودہ اور دقیانوسی سوچ کی بندشوں کو توڑا اور پولنگ عملہ کی تربیت کا بیڑہ اٹھایا۔ مالاکنڈ کی انسپکٹر انیلہ کا شمار کمیونٹی پولیس کے شعبے سے وابستگی اختیار کرنے والی ان خواتین رہنماؤں میں ہوتا ہے جو نوجوان خواتین اور لڑکیوں کو معاشرے کے طور طریقوں سے آگاہی حاصل کرنے اور اپنے ہر فعل اور اس پر اردگرد کے لوگوں کے ردعمل کو سمجھنے میں مدد دے رہی ہیں۔ میدان عمل میں سرگرم خواتین کی لاتعداد ایسی مثالیں موجود ہیں جنہیں مزاحمت اور مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن وہ اپنی آواز اٹھانے اور اسے منوانے کے لئے اپنی جگہ ڈٹی ہوئی ہیں۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان صنفی برابری اور خواتین کی خودمختاری کے سفر میں ترقی پسندانہ پالیسیوں کی سیڑھیاں ایک ایک کر کے اوپر جا رہا ہے لیکن پالیسی سازی کی سطح پر اتنا ضرور ہونا چاہئے کہ خواتین کو بھرپور مواقع دئیے جائیں تاکہ وہ معاشرے کی فلاح اور ترقی میں اپنا برابر کردار ادا کر سکیں۔ تنازعات میں تصفیہ کی بات ہو یا فروغ امن و قیام امن کی، خواتین اس میں بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ لہٰذا، خواتین کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے کہ وہ قیادت کے عہدوں پر فائز ہوں اور برابر حیثیت میں بیٹھ کر پالیسی سازی میں اپنا حصہ ملا سکیں۔
تحریر: علی جاوید