ایک سچائی جو پاکستانی معاشرے کی جڑوں تک رچی بسی نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ  عورت ہمیشہ محض اس بناء پر کمتر اور ماتحت رہتی ہے کہ وہ عورت ہے۔ مردانہ سوچ ہمارے معاشرے کی رگ رگ میں بسی ہے جس کے تحت طے شدہ سی بات ہے کہ عورت کی قسمت کا ہر فیصلہ مرد کے ہی ہاتھ میں رہتا ہے۔ اسے غلامی کہیں یا محکومی یا کوئی بھی نام دیں، ایک بات قابل ذکر ہے کہ اکثر اس کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ عورت کا تعلق کس خطے یا کس طبقے سے ہے، وہ کسی دیہی علاقے میں رہتی ہے یا شہری علاقے میں یا پھر کسی ایسی جگہ جہاں جاگیردارانہ نظام رائج ہے۔

یہی مردانہ سوچ اُن ماؤں کی تربیت میں بھی صاف نظر آتی ہے جو زیادہ تر وقت اپنی بیٹیوں کو یہی سمجھاتی رہتی ہیں کہ گھر کے اندر، گھر کے باہر اور فلاں جگہ یا فلاں صورتحال میں انہیں کس طرح بات کرنا ہے، کس طرح اٹھنا بیٹھنا ہے اور اپنا رویہ کیسا رکھنا ہے۔ تعلیم ایک ایسی چیز ہے جس کا فیصلہ فرد کے اپنے ہاتھ میں ہونا چاہئے لیکن ہمارے ہاں صنفِ نازک کے لئے اس طرح کے فیصلے بھی دورازکار کی بات ہیں۔

لیکن ٹھہریں… یہ ساری باتیں بڑی جانی پہچانی نہیں لگتیں؟ اس طرح کی باتیں تو ہم لوگ ہمیشہ سے پڑھتے چلے آ رہے ہیں، کم ازکم میں بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ میں اس طرح کی باتیں اس وقت سے پڑھ رہی ہوں جب سے میں نے پڑھنا سیکھا ہے۔ آپ کو نہیں لگتا کہ کم ازکم اب تو ہمیں ان گزرے دنوں کی باتوں کو گزرے دنوں کے ساتھ ہی رخصت کر دینا چاہئے اور اس پر توجہ دینی چاہئے کہ اب تک ہم نے کیا پایا اور آگے کس راہ جانا ہے؟

خواتین اپنی اور اپنے حق کی خاطر اٹھارہویں صدی کے دنوں سے آواز اٹھا رہی ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ ماننے پہ آئیں تو ماننا پڑتا ہے کہ ہم نے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ اس میں اچھی بات کیا ہے؟ اچھی بات یہ ہے کہ سب کچھ ہمارے ہاتھ سے نہیں نکلا۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم نے اپنی منزل پا لی ہے لیکن بہرحال اپنی منزل کی طرف بڑھ ضرور رہے ہیں۔ پچھلے دنوں مجھے پاکستان کی پہلی کوہ پیما اور مہم جو، ثمر خان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا… جی ہاں، وہ خاتون ہیں اور پوری دنیا میں ہماری یعنی پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں… مجھے کتنا فخر ہو رہا تھا یہ سوچ کر کہ میں بھی ان خواتین میں سے ایک ہوں اور اسی پاکستان کی رہنے والی ہوں جس نے ثمر خان کو کامیابی کی بلندیوں کو چھونے میں مدد دی۔ بلوچستان کی رکن صوبائی اسمبلی مہ جبیں شیریں کا نام ذہن میں آ رہا ہے جنہوں نے اپنی ساتھی خواتین کی مدد سے بلوچستان اسمبلی میں ڈے کیئر سنٹر بنوایا تاکہ کام اور گھر کے درمیان توازن برقرار رہے۔ گزر گئے وہ دن جب ہماری اپنے ہم صنف لوگوں سے بنتی نہیں تھی اور پنجے جھاڑ کر ایک دوسرے کے پیچھے لگے رہتے تھے۔ بطور صنف ہمیں اندازہ ہو گیا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے، چاہے کوئی سیاسی پلیٹ فارم ہو یا کوئی ایسا دفتر جہاں ملازم خواتین کا تناسب 40 فیصد سے کم ہو یا پھر کوئی بھی کاروبار، ہمیں  ہر حال میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔ آپ کی اپنی سوچ مثبت ہو گی تو دوسرے بھی آپ کے معاملے میں مثبت سوچ اپنائیں گے، پھر کیوں نہ ہم اسی طرح ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، آگے بڑھتے رہیں۔

لہٰذا، کسی پہاڑ کی چوٹی ہو جسے ثمر خان سر کر کے کوہ پیمائی کے نئے ریکارڈ بنا رہی ہیں یا پھر میدان سیاست جس میں عندلیب عباس اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا جیسی خواتین اپنا مقام بنا رہی ہیں، شوبز کی دنیا کی مومنہ درید ہوں یا سڑکوں پر ٹیکسی چلانے والی پہلی پاکستانی خاتون زاہدہ کاظمی اور پہلی ٹرک ڈرائیور شمیم اختر، ہم لوگ سب کچھ کر رہے ہیں  اور ہر گزرتے دن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ چلیں، پھر اپنا حوصلہ بڑھائیں، ایک دوسرے کے کندھے پر تھپکی دیں اور اسی طرح بڑھتے رہیں، اسی طرح ایک دوسرے کا سہارا بنیں اور اس منزل کو جا پہنچیں جہاں ہم معاشرے کامحروم طبقہ نہ رہیں اور ہمارا ملک اقوام متحدہ کے ایس ڈی جی نمبر 5 کو حقیقت کر دکھائے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم جان لیں کہ ہمیں اپنی جگہ بنانی ہے، ہمیں ہر میدان میں سرگرم ہونا ہے اور ملکی معیشت کا حصہ بننا ہے اور بن کے رہنا ہے۔ ہمیں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہی ہمارا کام ہے۔ مان لیں، اب ہمیں یہ کر کے دکھانا ہے…

 

تحریر:

تابیتا افضل

Leave a comment

Skip to content