آج کے اس دور میں بھی ہمارا معاشرہ اسی مفروضے پر چل رہا ہے کہ جہاں تک سماجی مرتبے کی بات ہے تو خواتین ہر حال میں مردوں سے مختلف ہیں۔ قوانین، جن کے تحت خواتین کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں، وہ مردوں اور عورتوں کے لئے ایک جیسے نہیں ہیں۔ کہنے کی حد تک قوانین عورتوں کو برابر حیثیت دیتے ہیں لیکن لوگ ان اصولوں پر عمل ہی نہیں کرتے کیونکہ حقیقت میں یہ ان کے نزدیک سزا کے مترادف ہے۔
معاشرے کی نظر میں مرد مضبوط اور غالب ہے جبکہ عورت کمزور اور مغلوب۔ لیکن یہ خیال کسی کو نہیں آتا کہ خواتین جو کام کرتی ہیں وہ ہم سب کی بہتری کے لئے سب سے زیادہ اہم ہے۔ شروع دن سے ہم یہ بات ذہنوں میں بٹھا لیتے ہیں کہ عورتوں کا کام سوائے کھانا بنانے کے کچھ نہیں۔ عورتیں اگر کام کرتی ہیں تو وہ محض ایک حد تک جا سکتی ہیں لیکن مردوں کے لئے ایسی کوئی حد نہیں۔
صنفی عدم مساوات کے مسائل برداشت سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ آگے بڑھنے اور کچھ کر کے دکھانے کے بجائے ہم اسی بحث میں الجھے رہ جاتے ہیں کہ کون کسی کام کو بہتر طریقے سے کر سکتا ہے۔ آج تک ہم اسی سوچ بچار میں لگے ہیں کہ مردوں کو زیادہ مواقع ملے ہیں یا خواتین کو۔ خواتین کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی اہمیت کیا ہے۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ آگے آئیں اور اپنے حقوق کی خاطر آواز اٹھائیں۔
میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنی بیٹیوں سے اس طرح بات کرتے ہیں جیسے وہ ان کے بیٹے ہوں اور وہ اس پر فخر کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ وہ بیٹی ہے اور ہر کام کر رہی ہے تو اسے بیٹا کیوں کہا جائے؟ آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ میری بیٹی بیٹوں جیسی ہے؟ یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ میری بیٹی ہے؟ اصل میں یہ امتیاز ہے۔ کیا اس کا یہی مطلب نہیں کہ اگر عورت کو بھی موقع دیا جائے تو وہ، ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مردوں کے کام سمجھے جاتے ہیں؟
پاکستان میں لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ عورتوں کی خودمختاری اصل میں غیرملکی منصوبہ ہے جس کا مقصد ہماری عورتوں کو گمراہ کرنا ہے۔ لیکن یہ غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ دنیا بھر میں خواتین کو اپنی صنف کی بناء پر مشکلات درپیش ہیں۔ خواتین اگر کمزور ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں شروع سے ہی تربیت دینے اور بااختیار بنانے کے لئے قوانین بنائے جائیں۔
اصل بات یہ ہے کہ عورت کمزور نہیں ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور وہ قابل احترام ہے۔ ضرورت ایک ایسے پلیٹ فارم کی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے حقوق کی بات کر سکے۔ ایسے قوانین نہ صرف بنانے بلکہ انہیں مختلف طریقوں سے نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے جو عمل پر مبنی ہوں۔ اگر کوئی شخص خواتین کے حقوق سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے کیونکہ خواتین نہ صرف ہمارے معاشرے میں خاندان کا اہم ترین ستون ہیں بلکہ کسی بھی فرد کی کامیابی کا سب سے بڑا سہارا ہیں۔
دنیا بھر میں خواتین کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے کے برابر مواقع نہیں ملتے جس کی وجہ سے وہ مردوں کے برابر تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں۔ انہیں روزگار کے برابر مواقع نہیں ملتے، ملازمتوں میں مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ شعبے بنے ہیں، اُنہیں قانون کے تحت پورا تحفظ نہیں ملتا، وہ پوری خودمختاری سے کام نہیں کر سکتیں، طبی نگہداشت کی سہولتیں اُن کے لئے ناقص ہیں، اُنہیں پوری مذہبی آزادی میسر نہیں ہوتی، اُن کے لئے سیاسی نمائندگی کا فقدان ہے اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں لوگوں کی سوچ ان کے لئے موافق نہیں ہے۔
ان حالات میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرد، خواتین کے برابر حقوق کے حقدار ہیں؟ شاید نہیں، اس لئے کہ انہیں تو پہلے سے بے شمار حقوق میسر ہیں۔ صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ خواتین کی رسائی بڑھائی جائے۔ بحیثیت مجموعی معاشرے کو اس سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا جو خواتین کو محض گھر کی کوئی چیز بنا کر رکھ دیتی ہے۔ خواتین اگر گھر کو چلا سکتی ہیں تو گھر کی چار دیواری سے باہر بھی وہ ہر کام کر سکتی ہیں۔ قانون کی نظر میں خواتین کو برابر ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنا کردار ادا کر سکیں۔
تحریر:
کنول اقبال