خواجہ سرا برادری، پاکستان میں خاصی نمایاں تعداد میں موجود ہے۔ ان میں معاشرے کے سبھی طبقات سے تعلق رکھنے والے اور کم سن بچوں سے لے کر ستر سالہ بزرگوں تک، ہر عمر کے افراد شامل ہیں۔ نسلی اور مذہبی وابستگی کے اعتبار سے دیکھیں تو تقریباً ہر نسل، ذات، مذہب اور عقیدے کے لوگوں میں خواجہ سرا موجود ہیں۔ 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری و خانہ شماری کے مطابق پاکستان میں خواجہ سرا افراد کی آبادی 10,418 ہے۔ لیکن بندیا رانا جیسے فعال اور مایہ ناز خواجہ سرا رہنما اور کارکن ان اعدادوشمار پر مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ خواجہ سرا کارکنوں کے مطابق ان کی آبادی اور بھی کچھ نہیں تو ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ کے درمیان ہے۔

حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے حتمی ووٹر فہرستیں جاری کی ہیں جن کے مطابق ملک میں کل اندراج یافتہ ووٹرز کی تعداد 115,748,753 ہے جن میں 64,078,616 مرد، 51,667,599 خواتین اور 2,538 خواجہ سرا شامل ہیں۔

2,538 رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز میں سے 1,886 پنجاب میں ہیں، 431 سندھ میں، 133 خیبرپختونخوا میں، 81 بلوچستان میں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خواجہ سرا ووٹرز کی تعداد صرف 7 ہے۔

خواجہ سرا برادری سے تعلق رکھنے والے رجسٹرڈ افراد کے یہ اعدادوشمار دیکھ کر پریشانی سی محسوس ہوتی ہے۔ ان میں سے مٹھی بھر ایسے ہیں جنہیں قومی شناختی کارڈ کی صورت میں باقاعدہ قانونی شناخت اور تحفظ اور حاصل ہے۔ سال 2009 میں ایک تاریخی کام یہ ہوا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی شناختی کارڈ کے فارم میں “تیسری صنف” کا خانہ شامل کرنے کا حکم دیا۔ 2012 میں خواجہ سرا افراد تیسری صنف کے طور پر اپنی رجسٹریشن کرانے اور قومی شناختی کارڈ بنوانے کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی ٹریبونل نے  اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ خواجہ سرا برادری کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو آئین کی رو سے ملک کے دیگر تمام شہریوں کو حاصل ہیں جن میں وراثت کا حق، کام کرنے کے مواقع، مفت تعلیم، اور طبی نگہداشت وغیرہ جیسی سہولیات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کی روشنی میں نادرا نے 2012 میں خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کا کام شروع کیا لیکن عملی طور پر آج بھی تقریباً 90 فیصد خواجہ سرا اس حق سے محروم نظر آتے ہیں۔ یہ کمیونٹی ہمیشہ سے ایک مخمصے کا شکار رہی ہے جنہیں معاشرے میں کسی بھی دوسرے فرد کی طرح قبول نہیں کیا جاتا اور عملی طور پر وہ معاشرے سے خارج ہی رہ جاتے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بجائے اس کے کہ حالات میں کوئی بہتری آتی، الٹا ان کی صورتحال بگڑتی چلی گئی ہے۔ مانا کہ حالیہ سالوں کے دوران انہیں برائے نام ملازمت کے مواقع دئیے گئے ہیں، انہیں ملک کے شہری کے طور پر اپنا اندراج کرانے اور قومی شناختی کارڈ رکھنے کا حق بھی مل گیا ہے، اور ووٹر کے طور پر اندراج سے انہیں اظہار رائے کا موقع بھی نصیب ہوا ہے لیکن اول تو ان حقوق سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بڑی محدود سی ہے اور اصل بات یہ ہے کہ عملی طور پر ان کی مشکلات میں شاید ہی کوئی کمی آئی ہے اور ان کے ساتھ برتے جانے والے معاشرتی رویوں میں  برائے نام ہی کوئی بہتری آئی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ آج بھی ہر طرف سے ٹھوکریں ہی ان کی مقدر بنتی ہیں۔

قانون سازی جیسے اقدامات اپنی جگہ، خواجہ سرا برادری کے معاملے میں عام شہریوں کے روئیے خاص طور پر ان کی حالت زار کو مزید بگاڑنے کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ یہ ان کی جدوجہد کا ثمر ہے کہ جن کا مقدر صرف سڑکوں پر بھیک مانگنا تھا آج وہ سکولوں اور کالجوں میں حصول تعلیم کے لئے بھی داخل ہو رہے ہیں، جیسے تیسے کر کے قومی شناختی کارڈ بھی بنوا رہے ہیں اور انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود سوچ اور رویوں کا عالم یہ ہے کہ والدین جیسے انتہائی قریبی رشتے بھی ان کی مخالفت اور ان کی حق تلفی میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ لہٰذا، اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا معاشرہ خواجہ سراؤں کو ایک برابر انسان اور فرد کے طور پر تسلیم کرے۔ حکومت جہاں اداروں کی سطح پر مقدور بھر کوششیں کر رہی ہے وہیں  ہمیں بھی معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا کہ خواجہ سراؤں کو مرکزے دھارے میں لائیں اور کسی بھی دوسرے فرد کی طرح انہیں معاشرے کا حصہ بنائیں۔  تب جا کر ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ یہ معاشرہ جس میں ہم رہتے ہیں، سب کا سانجھا معاشرہ بنے اور جس میں سب کے ساتھ رواداری اور برابری والا سلوک کیا جائے۔


تحریر:  عنبرین کنول، سماجی کارکن

2 Comments

  • by Arham Raza
    Posted دسمبر 15, 2020 5:06 صبح 0Likes

    we cannot imagine the trauma that transgender people are going through. Their parents, family, society and every segment has abandoned them. Government must protect the lives of transgender.

Leave a comment

Skip to content