میرے ایک سابقہ ساتھی نے مجھے پاکستان کی خواتین کے بارے میں کچھ لکھنے کو کہا تو اس وقت مجھے ایسے لگا جیسے میں سوچ کے دوراہے پر کھڑا ہوں اور کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ خواتین کیوں اور کیسے اس دنیا میں دوسرے درجے کی شہری بن کر رہ گئی ہیں۔ پہلا خیال میرے ذہن میں اس تحریک کے بارے میں آیا جو امریکہ میں خواتین کو ووٹ کا حق دلوانے کے لئے چلائی گئی اور جسے “ویمن سفریج” یعنی خواتین کے حق رائے دہی کی تحریک کا نام دیا جاتا ہے۔
جی ہاں، میں امریکہ کی ہی بات کر رہا ہوں، جو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے جہاں 1960 کی دہائی تک خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہ تھا۔ اس کامطلب تو یہ ہوا کہ خواتین کو مساوی حقوق دینے اور ان پر عمل کرنے کے معاملے میں پاکستان ہر لحاظ سے امریکہ سے بہتر ہے۔
آئین کی نظرمیں خواتین کو حقوق حاصل ہیں لیکن حقیقت سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران شانگلہ کے حلقے پی کے -23 میں الیکشن کمیشن کو انتخابات دوبارہ کرانے کا حکم دینا پڑا کیونکہ خواتین کا ووٹر، ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے بھی کم تھا جو قانون کی نظر میں ناقابل قبول ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ دس فیصد کی کم سے کم حد کا مطلب کیا ہے؟ میرے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت بھی جانتی ہے کہ خواتین کا ووٹر، ٹرن آؤٹ، مردوں کے مقابلے میں کم ہو گا اسی لئے یہ کم سے کم حد مقرر کی گئی ہے تاکہ کچھ خواتین تو حصہ لیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی خواتین انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے رہیں، کیوں؟ کیا وہ اپنی مرضی سے ایسا کرتی ہیں یا انہیں زبردستی گھر سے باہر نہیں آنے دیا جاتا؟ میرے خیال میں ان دونوں وجوہات کے باعث خواتین کی شمولیت کم رہتی ہے۔ اس پر کچھ بات ہو جائے۔
پاکستانی معاشرہ، مردوں کا معاشرہ ہے اور ہر چیز مردوں کے گرد گھومتی ہے۔ گھر کی روزی روٹی کی بات ہو یا گھر کے فیصلے کر نےکی، حتیٰ کہ ذاتی نوعیت کے فیصلے بھی مردوں کے ہاتھ میں ہیں۔ پاکستان میں مرد ہی سب کچھ ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں جو صنفی کردار طے شدہ نظر آتے ہیں وہ بھی مردوں کے حق میں جاتے ہیں۔ مردوں کے اس ‘مذہبی’ معاشرے کی سب کی سب اقدار ہمارے اندر اس حد تک رچ بس چکی ہیں کہ خود خواتین بھی ان اقدار اور نام نہاد قاعدوں کا پرچار کرتی نظر آتی ہیں اور نہ صرف خود ان پر عمل کرتی ہیں بلکہ دوسری خواتین کو بھی یہی سکھاتی ہیں۔
یہاں اصل میں فطرت اپنا کام دکھاتی ہے۔ میرے نزدیک یہ مرد یا عورت کی فطرت نہیں ہے، بلکہ ہمارے ہاں مرد ہوں یا خواتین، ان کی پرورش ہی ایسے طریقے سے کی جاتی ہے کہ ان سے بننے والا معاشرہ مردوں کا معاشرہ بن جاتا ہے۔ فطرت سے میری مراد یہ ہے کہ خواتین ہی شروع سے مردوں کو یہ بات سکھاتی ہیں کہ وہ عورتوں کے مقابلے میں برتر ہیں یا زیادہ مراعات کے حقدار ہیں۔
ہرخاتون کو وہ منظر کبھی نہیں بھولتا جب ماں، اچھی بوٹی، بھائی کے لئے الگ کر کے رکھ دیتی ہے اور بیٹیوں سے کہتی ہے اس وقت تک کھانا شروع نہیں کرنا، جب تک بھائی نہ آ جائیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس مردانہ سوچ کو مسلط کرنے میں صرف مردوں کا ہاتھ نہیں ہے، خواتین بھی اس میں برابر کی شریک ہیں۔ بالکل اسی طرح مرد وں اور خواتین کو مل کر کام کرنا ہو گا، اور وہ کر بھی سکتے ہیں، اور اس معاشرے کو مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے برابر بنانا ہو گا۔ یہ کام ہم لوگوں کوکرنا ہو گا، ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی پرورش اس طرح کرنا ہو گی کہ گود سے گور تک، مرد اور عورت دونوں برابر رہیں۔
ڈاکٹر ہوں یا انجینئر، سیاست ہو یا کھیل، کاروبار ہو یا کوئی بھی شعبہ، خواتین ہر پیشے میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ آج ہمیں پاکستان میں ہر شعبے میں خواتین دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ اس لئے جو لوگ مایوسی کاشکارہیں، انہیں جان لینا چاہئے کہ ہر معاشرہ وقت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور پاکستان بھی ضرور بڑھے گا۔
آئیں، ہم مل کر کام کریں اور پاکستان کو ہر دوڑ میں آگے بڑھائیں۔
جی ہاں، امید تو بہت ہے
وقاص بٹ