مختلف طاقتور طبقات ہر دور میں اپنی اپنی سیاسی اشرافیہ تخلیق کرتے رہے ہیں۔ رینالڈز اور ٹیلر رابنسن جیسے اہل علم کا کہنا ہے کہ کابینہ کوئی بھی ہو، اس میں خواتین کی تعداد عام طور پر برائے نام رہی ہے اور جو لوگ اس مرتبے پر فائز ہوتے رہے ہیں ان کے حصے میں زیادہ تر “نسوانی خصوصیات اور عزت ووقار کے نچلے درجات” آئے۔ اہلِ علم نے یہ نتائج کابینہ کی تشکیل کے تاریخی تجزیہ کی بنیاد پر اخذ کئے ہیں۔
فرانسیسکا بوریلی جیسے بعض اہل علم ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ کئی ممالک نے محسوس کیا کہ کابینہ ایسی ہونی چاہئے جو ملکی آبادی سے مشابہ ہو اور اکیسویں صدی میں کئی لیڈروں نے مرد اور خواتین وزراء کی “متوازن” کابینہ کا علم بھی بلند کیا۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے ان لیڈروں میں سپین کے وزیراعظم جوز لوئس روڈریگز زپاٹیرو پیش پیش نظر آتے ہیں جنہوں نے 2004 اور 2008 میں برابری پر مبنی کابینہ بنائی۔ اسی طرح چلی کی صدر مشیل بیکلٹ بھی نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ کابینہ کی تشکیل کے روایتی طریقوں سے آگے بڑھیں اور خواتین کو مناسب نمائندگی دیں۔ اس کا ایک عمدہ جواب کینیڈا کے وزیراعظم جسٹین ترودیو نے 2015 میں اس وقت دیا جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ کابینہ میں اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو شامل کرنے کی وجہ کیا ہے۔ اس پر جسٹین ترودیو نے جواب دیا، “کیونکہ یہ 2015 ہے”۔
آج ہم 2021 میں کھڑے ہیں لیکن صنفی برابر ی کی عالمی مہم کو اپنی قومی مہم بنانا تو دور کی بات، ہمارے اہل سیاست کو تولگتا ہے ابھی تک اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ آج کل حزب اختلاف کے جلسوں میں خواتین بڑی نمایاں دکھائی دیتی ہیں، شاید اس لئے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی بعض نمایاں لیڈرز خواتین ہیں، اس کے باوجود خواتین کو پالیسی سازی کے عہدوں میں لانے کی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ عمران خان کی برسراقتدار حکومت، “تبدیلی” کے عوامی نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی، لیکن ابھی تک یہ بھی خواتین کے بغیر ہی چل رہی ہے۔
ملک کی مختلف اسمبلیوں میں کابینہ کے ارکان پر نظر دوڑائیں تو ایک افسوس ناک صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ وفاقی کابینہ میں وفاقی وزراء کی تعداد 27 ہے جن میں صرف تین خواتین شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین پارلیمانی سیکرٹریوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے (36 میں سے 14)۔ یہ حقیقت اس دلیل کو تقویت دیتی ہے کہ خواتین کو “عزت ووقار کے نچلے درجات” والے عہدے دئیے جاتے ہیں کیونکہ پارلیمانی سیکرٹریوں کے پاس اتنے اختیارات نہیں ہوتے جتنے وفاقی وزراء کے پاس ہوتے ہیں۔ پنجاب میں صرف تین وزارتیں خواتین کے پاس ہیں اور سندھ میں محض دو۔ سب سے بدتر صورتحال بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی ہے۔ اسی طرح حال ہی میں بننے والی گلگت بلتستان کابینہ میں کوئی خاتون وزیر موجود نہیں۔
یہ کئی ترقی پذیر ملکوں کا مسئلہ ہے۔ تدریسی ماہرین اور سیاست دانوں نے اس ضمن میں مختلف خیالات پیش کئے ہیں۔ “توصیفی نمائندگی” یعنی جیسے لوگ ویسے نمائندے، کے خیال کی بنیاد پر لیسوتھو، ارجنٹائن اور بھارت میں کوٹہ سسٹم کے تجربے کئے گئے۔ نتائج ملے جلے رہے لیکن خواتین کی نمائندگی اور اس کے نتیجے میں ان کی خودمختاری پر اس نے وسیع معنوں میں بے پناہ اثرات مرتب کئے۔
پاکستان کے سیاق وسباق میں بھارت کا معاملہ کافی قریب لگتا ہے اور وہاں صرف ایک شناخت یعنی صنف پر توجہ مرکوز کرنے سے دوسری شناخت (سماجی طبقہ، مذہب یا نسل وغیرہ) کی اہمیت غالباً کم ہو گئی ہے۔ البتہ کوٹہ کا طریقہ کار محتاط طریقے سے وضع کیا جائے اور یہ زیادہ جامع ہو تو یہ ہر ذات اور طبقے کے صنفی گروہوں کی نمائندگی یقینی بنا سکتا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ لبرل جمہوریت کے حامی انتخابی صنفی کوٹہ کی حمایت نہیں کرتے کیونکہ ان کی نظر میں یہ لبرل جمہوریت کے اصول کے منافی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں جہاں خواتین کے حالات ویسے نہیں ہیں جیسے مردوں کے ہیں، صنفی کوٹہ جمہوریت کو زیادہ شمولیت پر مبنی بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔
موجودہ حکومت مختلف شعبوں میں کئی مختلف اقدامات کے تجربات کر رہی ہے۔ کوٹہ کی بنیاد پر زیادہ خواتین کو کابینہ میں شامل کرنے کا اقدام شاید ایسا بے مصرف نہ ہو گا۔ یہ وہ اہم شعبہ ہے جس پر توجہ مرکوز کر کے حکومت اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ جس “تبدیلی” کی وہ بات کرتی ہے اس سے معاشرے کا یہ اہم طبقہ باہر نہ رہ جائے۔
تحریر:
شکیل احمد شاہ
بشکریہ: دی ایکسپریس ٹریبیون