پاکستان میں جتنے باصلاحیت، ذہین اور محنتی مرد ہیں، خواتین بھی زیادہ نہ سہی، اتنی باصلاحیت، ذہین اور محنتی ضرور ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسی خواتین بھی ہیں جو آسکر اور نوبل جیسے انعامات بھی جیت چکی ہیں۔ ہمارے پاس شزا فرحان جیسی خواتین بھی ہیں جن کا نام میڈیا کے عالمی شہرت یافتہ ادارے فوربز نے تیس سال سے کم عمر تیس بہترین کاروباری شخصیات (تھرٹی انڈر تھرٹی انٹریپرینیورز) کی فہرست میں شامل کیا، یعنی دنیا مان چکی ہے کہ پاکستانی خواتین کتنی باصلاحیت ہیں۔ لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خودمختاری اور فیصلہ سازی کے میدان میں ہماری خواتین کہاں کھڑی ہیں تو پاکستان کی صورتحال کچھ اتنی حوصلہ افزائی دکھائی نہیں دیتی۔ گھر ہو یا معاشرہ، پاکستانی خواتین مردوں کے زیرغلبہ بنیادی ڈھانچوں کی زنجیروں کو نہیں توڑ پائیں اس لئے وہی ہوتا ہے جو مرد چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نجی زندگی ہو یا عوامی زندگی، خواتین کا اختیار اور اثرورسوخ بری طرح اس کی زد میں آتا ہے۔ صنفی تعصبات، اور ان کے ساتھ ہر طرف پھیلی غربت اور ناخواندگی کے ہاتھوں خواتین کے حالات مزید بگڑ جاتے ہیں۔ فرق رکھنے کی یہ روش بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے، اور اس بات کا فیصلہ بچے کی جنس پر ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا۔ گھر اور سماج، ہر جگہ برتی جانے والی یہ ناانصافی خواتین کی عمر بڑھنے کے ساتھ شدید سے شدید تر ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ موت تک ان کا پیچھانہیں چھوڑتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے اردگرد  قیادت والے کرداروں میں شاذونادر ہی خواتین دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سیاست ہو یا معاشرت یا پھر عام زندگی، خواتین کی قیادت ہوشربا حد تک کم ہے۔ انہیں برابر مواقع نہیں ملتے، اور یہی وہ بنیادی شرط ہے جو کسی بھی انسان کو مضبوط اور اعتماد سے بھرپور بناتی ہے۔

بے نظیر بھٹو، پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ انہیں مناسب اختیار حاصل تھا اور وہ اثرورسوخ بھی رکھتی تھی۔ ملک کے لئے ان کی خدمات  پر انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی حکومت جدیدجمہوریت کے معیار پر عین پورا اترتی تھی جس کا موازنہ ملک میں مردوں کی زیرقیادت برسراقتدار آنے والی کسی بھی حکومت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ ان کی کامیابیوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ماننا غلط نہ ہو گا کہ ان کا خاندان ان کی بھرپور معاونت اور حوصلہ افزائی کر رہا تھا جس کی بدولت انہوں نے ہمت دکھائی اور میدان سیاست میں قدم رکھا اور اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنے میں کامیاب رہیں۔ لہٰذا، بے نظیر بھٹو کی سیاسی کامیابیوں سے ہمیں ایک اہم سبق ملتا ہے کہ اگر پاکستانی خواتین، جو کسی بھی طرح مردوں سے کم نہیں، کو مدد، معاونت، حوصلہ افزائی اور سازگار ماحول مل جائیں تو کوئی چیز انہیں آگے بڑھنے اور کامیابیوں کی منازل طے کرنے سے نہیں روک سکتی۔

اس لئے اصل چیلنج خواتین کو برابر مواقع فراہم کرنا ہے اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ہم خواتین سے متعلق اپنی معاشرتی اقدار اور ان کی ذات سے جڑی توقعات کو بدلیں۔ خواتین سے متعلق پالیسیاں، صنفی تقاضوں سے ہم آہنگ بجٹ سازی اور معیاری عوامی خدمات تک یقینی رسائی، یہ سب باتیں اپنی جگہ واقعی اہم ہیں  جو یہ طے کرتی ہیں کہ خواتین کس حد تک بااختیار ہیں، لیکن اصل چیلنج پھر بھی وہی ہو گا کہ ہم مردوں کی اس سوچ کو کس طرح بدلتے ہیں جو اصل میں ہمارے معاشرے کو چلا رہی ہے۔ اس سے بھی بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ خود، خواتین کس حد تک زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کا شوق اور جذبہ رکھتی ہیں۔ قیادت والے کردار ، خواہ وہ دفتروں میں ہوں یا سیاست میں، خواتین کے ہاتھ میں دینا ایک طویل سفر ہے جو ہمیں بہرحال طے کرنا ہو گا۔ مقامی حکومتیں اب نچلی سطح سے خواتین کو نمائندگی کے کہیں بہتر مواقع فراہم کر رہی ہیں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی خواتین کی بھرپور نمائندگی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔

ہمیں گھر اور معاشرہ دونوں جگہ شعور و آگہی کی سطح کو بلند کرنا ہو گا تاکہ خواتین کو مردوں سے کمتر نہیں بلکہ مردوں کے برابر مانا جائے۔ یہ برابری براہ راست مواقع کے ساتھ جڑی ہے جو انہیں پیدائش کے وقت سے ہی دینا ہوں سگے یعنی انہیں غذا، تعلیم، صحت، سب کچھ اسی طرح فراہم کرنا ہو گا جس طرح مردوں کو ملتا ہے۔ روزگار کی منڈی میں انہیں مردوں کے برابر تنخواہ پر رکھنے کا رجحان پیدا کرنا ہو گا۔ انہیں برابر موقع دینا ہو گا کہ وہ اپنے فیصلے، اپنی مرضی سے، پوری آزادی، اعتماد اورحوصلے کے ساتھ کریں۔ ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی، ان کا سہارا بننا ہو گا، تاکہ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لئے آگے بڑھ سکیں۔ ہمیں ان کا ساتھ دینا ہو گا،  چاہے وہ وزیراعظم پاکستان ہی کیوں نہ بننا چاہتی ہوں۔

آئیں، ہم پاکستان کو ترقی کی راہ پر بڑھائیں، اور اپنی خواتین کی مدد کریں کہ وہ میدان سیاست میں آئیں۔ آئیں، ہم انہیں مانیں، ان کے جذبوں اور ان کی خدمات کو مانیں، ان پر خوشی کا اظہارکریں، تاکہ شرمین عبید اور شزا فرحان جیسی اور بھی خواتین سامنے آئیں، تاکہ ہمارے ہاں پہلے سے بھی زیادہ بااثر خواتین وزیراعظم آئیں۔

 

Leave a comment

Skip to content