یہ سچ ہے کہ جمہوریت کا انحصار عوامی عہدوں پر لوگوں کی صنف یا معذوری سے قطع نظر اُنکی شمولیت پر ہے ، ۔ لیکن پاکستان کا سیاسی میدان   معذور افراد  کی اس میدان میں شمولیت کےحوالے سے اضطراب کا شکارہے ۔ جس میں ایک سوچ ایسی بھی ہے کہ معذور افراد کو سیاسی لحاظ سےغیر ذمہ دار اور غیر فعال تصورکیا جاتا ہے، اور ان کے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے کے حق کو نظرانداز کیا جانا چاہئے۔

اسلام آباد  دارلخلافہ کے “معذور افراد  کے حقوق کا ایکٹ 2020”  کے حصہ دوئم ، شق 3نمبر  (ا) کے مطابق” حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ہر معذور فرد کو اس بات کا حق ہوگا کہ اس کا انفرادی طورپرعزت و   وقار کا احترام ملحوظِ خاطر رکھا جائے اوراسے ایک  مہذب زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو گا  جس میں  اُسے معاشرے کی تمام سہولتوں کے حصول میں مساوی حقوق حاصل ہوں گے جس میں تعلیم کا حصول، معاشرتی ، معاشی ، ثقافتی اور دیگر تمام سرگرمیاں بغیر کسی امتیازی سلوک  کےمہیا کی جائیں گی”۔ تاہم ، ہم کہتے ہیں ، پڑھتے ہیں  اور جو سُنتے ہیں۔وہ سب ہمارے آس پاس کی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ معذور افراد واقعی ہی نظرانداز ہوتے ہیں اور بعض اوقات انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان کے حقوق سے سمجھوتہ کیا جارہا ہے۔

جب ہم انتخابی عمل میں معذور خواتین  کی شمولیت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں  ایک وسیع بحث ومباحثہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس میں انتخابات سے پہلےاور انتخاب کے دن سے متعلق انتظامات اور مصروفیات شامل ہیں ۔ معذور خواتین کا انتخابات کے عمل میں شامل ہونے سے متعلق پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ معذور خواتین کو  اپنے قومی شناختی کارڈ  کے اجراء میں حائل مشکلات کے حل کے ساتھ ساتھ  ووٹر اندراج بھی کروانا ہوتا ہے۔ قومی شناختی کارڈ  کے اجراءاور ووٹر رجسٹریشن کے لئے علیحدہ علیحدہ کاؤنٹرزکی اشد ضرورت ہے، جس میں معذار افراد کی ضرورت کے پیشِ نظرکم اونچائی والے پولنگ بوتھس  کا قیام،محدب عدسہ،  بڑے قلم ، اورایسی سہولیات کی فراہمی جسےمعذورافراد کی ضروریات کے مطابق ترمیم شدہ پولنگ بوتھ پر میسر کیا جا سکے  تاکہ معذور خواتین بھی اپنی انتخابات سے متعلقہ  ذمہ داریوں کوبہتر انداز میں نبھا سکیں۔

یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک جامع حکمت عملی تیار کرے جس کا مقصد انتخابی عمل میں معذور افراد خصوصاً معذورخواتین کی شرکت کو یقینی بنایا جا ئے اور ان کی تعداد میں اضافہ ممکن ہو سکے۔ اس کے علاوہ ، سیاسی جماعتوں کوبھی ایسے خصوصی مرد و خواتین کی  حوصلہ افزائی کرنی چاہئ۔تا کہ معذور افراد بھی ان سیاسی جماعتوں کے مرکزی کرداروں میں شامل ہوں۔نہ کہ انہیں کسی ایسی چیز کے لئے نظرانداز کیا جائےجس کے ساتھ وہ پیدا ہوئے ہوں یا حادثاتی طور پر اس کا شکار ہو چکے ہوں۔ منتخب پولنگ اسٹیشنوں کے آڈٹ کرانے کا عمل جس میں معذور افراد کی سیاسی میدان میں شراکت کے راستے میں حائل پولنگ سے متعلق رکاوٹوں سے نجات پانے کے لئے ، غیر تسلی  بخش انتظامات والے پولنگ اسٹیشن   کو نااہل  قرار دیئے جانے سے بھی اس امر میں خاطر خواہ بہتری ممکن ہے  ۔

معذور خواتین کی سیاسی  میدان میں شرکت بڑھانے کے لئے  اب تک متعدد اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان  نے 2017 میں , صنف اور معذوری کا ورکنگ گروپ بنایا، جو موجودہ انتخابات کے عمل سے متعلق  قوانین میں ایسی ممکنہ  ترامیم  کرے گا  جس سے معذورووٹروں ، امیدواروں ، انتخابات کے منتظمین ، اور مبصرین کی حیثیت سے انتخابی عمل میں حصہ لینے کی ترغیب دے گا۔ امید ہے کہ ان اقدامات سے معذور خواتین مستقبل میں  ملک کے انتخابی عمل میں  بڑھ چڑھ کرحصہ لے سکیں گی۔

:تحریر

حمزہ احمد،طالبعلم

Leave a comment

Skip to content