آج کے دور میں کام کرنے اور قیادت کے تقاضے نبھانے کے لئے نئے طور طریقے اپنانا ضروری ہو گیا ہے۔ ایسے مضبوط لیڈر اس دور کی ضرورت ہیں جو ابلاغ کی شاندار صلاحیتوں سے مالامال ہوں، دوسروں کے ساتھ مل کر ٹیم کی شکل میں کام کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہوں اور جن کی سرگرمیوں کا محور لوگ ہوں۔ حالیہ سالوں کے دوران ان مہارتوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے لیکن کووڈ -19 (جس کے ساتھ ہی پوری دنیا معاشی بحران اور بے یقینی کی لپیٹ میں آ گئی) نے ان کی اہمیت مزید دوچند کر دی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ افراد کا ایک طبقہ جو ان لازمی صفات سے لیس ہے، پہلے ہی اداروں اور تنظیموں کا لازمی جزو ہے اور وہ ہیں ہماری خواتین۔ البتہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسی کمپنیوں، اداروں یا تنظیموں کی تعداد بہت کم ہے جو قیادت کے معاملے میں اس طبقے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔
خواتین کے معاملے میں ایک بات طے ہے کہ وہ مضبوط شخصیت کی مالک ہوتی ہیں اور لوگوں کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت ان کے اندر بدرجہ اتم ہوتی ہے۔ دوسروں کی بات غور سے سننا، دوسروں کے خیالات سے آگاہی حاصل کرنا، دوسروں کی اچھی باتوں کو ماننا اور حالات کے مطابق چلنا، ایسی خوبیاں ہیں جن میں خواتین آگے دکھائی دیتی ہیں۔ تحقیقی سرگرمیوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جن چھوٹے چھوٹے گروپوں میں خواتین زیادہ تعداد میں ہوں وہ بحیثیت مجموعی زیادہ ذہین ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جن کمپنیوں میں صنفی برابری کا عنصر زیادہ ہوتا ہے وہ اپنی مقابل کمپنیوں کی نسبت زیادہ جدت آمیز سوچ اپناتی ہیں اور بہتر مالی نتائج دکھاتی ہیں۔
ظاہر ہے ہمارا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ سب خواتین میں یہ تمام صلاحیتیں ہوتی ہیں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اور نہ ہی اس تحریر کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ خواتین میں یہ صلاحیتیں زیادہ بہتر ہوتی ہیں، لیکن اس پر شاید کوئی بحث نہیں کہ خواتین ان تمام انتظامی صلاحیتوں سے لیس ہوتی ہیں جو کسی کمپنی کو کامیاب بناتی ہیں۔ ہم جس ماحول میں کام کر رہے ہیں اس میں کیوں، کیسے، کی وضاحت کرنا اتنا اہم نہیں، اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کام کر کے دکھائیں اور کام کے نئے اصولوں اور فلسفے پر چلتے ہوئے قیادت کر کے دکھائیں۔ کمپنیاں اگر ایسا ماحول پیدا کر دیں جس میں زیادہ سے زیادہ خواتین ان میں کام کرنےاور اپنی وابستگی برقرار رکھنے پر مائل ہوں اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع میسر ہوں تو اس سے کمپنیوں کی اپنی ترقی کا سفر بھی تیز سے تیز تر ہو سکتا ہے۔
خواتین دن بہ دن اپنی جگہ بنا رہی ہیں اور اختیار و قیادت کی نئی بلندیوں کو پہنچ رہی ہیں۔ وہ تمام گھسی پٹی باتوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہی ہیں اور یہ ثابت کر کے دکھا رہی ہیں کہ ان کی قیادت میں اعتماد بھی ہے اور اپنا آپ منوانے کی صلاحیت بھی۔ دقیانوسی سوچ بتاتی ہے کہ خواتین کا طرزقیادت سب کو ساتھ لے کر چلنے والا، جمہوری اور بات چیت سے معاملات طے کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ دقیانوسی سوچ ہمارے ان تجربات و تاثرات پر مبنی ہے جو مختلف اداروں اور تنظیموں پر اثر دکھانے والی خواتین نے ہمارے ذہنوں پر چھوڑے ہیں۔
خواتین کی قیادت زیادہ متاثرکن اور مائل کرنے والی ہوتی ہے۔ وہ زیادہ تر جدت آمیز سوچ اپناتی ہیں، نت نئے خطرات مول لیتی ہیں اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر توجہ دیتی ہیں۔ یہ ایک طرح کی مفاہمتی قیادت ہے جس میں ہر چیز پر کھل کر بات ہوتی ہے، جس میں ہر طرح کی خوبیوں اور اوصاف کی مالک خواتین اور لڑکیوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ خود کو بااختیار بنائیں اور اپنی بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے لوگوں کی قیادت کریں۔ ہمیں دقیانوسی سوچ سے پیچھا چھڑانا ہو گا اور اپنے اندر آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا تاکہ ہم ایسا معاشرہ قائم کر سکیں جو بہتر مساوات پر مبنی ہو جس میں چند ایک خواتین کو نہیں بلکہ سب خواتین کو آگے بڑھنے اور اپنا حصہ ملانے کے مواقع ملیں۔ خواتین کی قیادت کو خاص طور پر بحران کے دنوں میں آگے آنے کے مواقع دینا زیادہ ضروری ہے تاکہ وہ اپنے علم، مہارت، صلاحیت اور منفرد طریقہ کار کے ذریعے بڑی تبدیلیاں لا سکیں، فرق کو دور کر سکیں اور حالات کو بہتر بنا سکیں۔
تحریر:
کلثوم زہرہ زیدی