عورت کوئی بھی ہو، وہ ایک عظیم لیڈر بھی بن سکتی ہے اور سیاست دان بھی، اپنا کاروبار کر بھی سکتی ہے اور اسے چلا بھی سکتی ہے۔ بہرحال وہ جس شعبے میں چاہے، آگے بڑھ سکتی ہے۔ اس عام غلط فہمی کو دور کرنا بہت ضروری ہے کہ عورتوں کا کام صرف گھر کی دیکھ بھال کرنا ہے اور گھر کے کاموں اور گھر والوں کی خدمت کے علاوہ، وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔ عورت کا ایک رخ اور بھی ہے۔ وہ نہ صرف گھر کو چلا سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی چلا سکتی ہے، میدان سیاست میں بھی اپنا مقام بنا سکتی ہے اور قیادت کے تقاضوں کو بھی نبھا سکتی ہے۔
فیس بُک کی چیف آپریٹنگ آفیسر شیرل سینڈبرگ نے یہی بات کچھ اس طرح کہی ہے کہ “ہمیں عورتوں کو ہر سطح پر لانا ہو گا، یہاں تک کہ اعلیٰ ترین سطح پر بھی، تاکہ چیزیں بدل سکیں، گفتگو ایک نیا رخ اختیار کر سکے، اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ خواتین سے منہ نہ موڑا جائے اور انہیں نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ ان کی بات سنی جائے اور اس پر توجہ دی جائے”۔
خواتین کو خودمختاری ملے گی تو انہیں برابر حقوق بھی ملیں گے اور مردوں کی طرح ان کی بات بھی سنی جائے گی۔ ہمیں اپنے اردگرد لاتعداد ایسی خواتین دیکھنے کو مل جاتی ہیں جو بڑی کامیابی کے ساتھ سیاست کر رہی ہیں، کاروبار چلا رہی ہیں، یا قیادت کے عہدوں پر فائز ہیں اور یوں معیشت، معاشرت اور دنیا کی ترقی میں اپنا حصہ ملا رہی ہیں۔
اسلام اور خواتین کی خودمختاری
اسلام سے پہلے عورت کی حیثیت کچرے برابر سمجھی جاتی تھی۔ برابری تو دور کی بات، انہیں کوئی حقوق بھی حاصل نہ تھے۔ اسلام نے انہیں برابر اور منصفانہ حقوق دئیے اور انہیں سیاسی، سماجی اور معاشی اختیار دیا۔
قرآن وحدیث میں ایک انسان کی حیثیت سے مردوں اور عورتوں کی برابری کا ذکر کئی جگہوں پر پڑھنے کو ملتا ہے:
“اور عورتوں کو مردوں پر وہی حقوق حاصل ہیں جو مردوں کو عورتوں پر۔ (226:2)”
پیغمبر اقدس نے حجۃ الوداع میں عورتوں کے حقوق پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
“عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات کے ذریعے انہیں جائز و حلال کیا ہے… تمہیں ان پر (حقوق) اور انہیں تم پر (حقوق) حاصل ہیں کہ اپنی حیثیت کے مطابق ان کا کھانا اور کپڑا تمہارے ذمہ ہے۔”
خواتین کو بااختیار بنا کر ہم انہیں لیڈر بنا سکتے ہیں، انہیں معاشرے میں ان عہدوں پر فائز کر سکتے ہیں جہاں فیصلے کئے جاتے ہیں کیونکہ اس سے ان کی عزت وتوقیر اور مرتبے میں اضافہ ہو گا۔ خواتین کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کر کے اور انہیں کاروبار کرنے میں مدد دے کر بھی بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔ خواتین دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں اور ان کی خودمختاری کا مطلب ہو گا دنیا کی خودمختاری۔
بعض ترقی پذیر ملکوں میں خواتین کی خودمختاری کو درست نہیں سمجھا جاتا لیکن اب یہ تصورات اور رجحانات بدل رہے ہیں۔ بحیثیت معاشرہ، ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ خواتین کی خودمختاری کسی بھی ملک کی اور پوری دنیا کی سماجی و معاشی ترقی اور خوشحالی کے لئے لازم ہے
۔
:تحریر
سعدیہ مرزا