خواتین کی خودمختاری کسی بھی ملک کی سماجی ترقی اور آسودہ حالی کے لئے لازم ہے۔ خواتین معیشت اور خوراک کی پیداوار میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہر دور میں اقوام کے استحکام، ترقی اور طویل مدتی خوشحالی کو یقینی بنانے میں خواتین نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ خواتین کی صلاحیتوں اور مہارتوں کو بڑی حد تک پوری طرح بروئے کار نہیں لایا گیا۔ عورت جتنی زیادہ تعلیم یافتہ ہو گی، اسے معاشی مواقع ملنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہو گا۔خواتین کی خودمختاری معاشرے کی ترقی کے لئے ناگزیر ہے جبکہ خواتین کی معاشی خودمختاری صنفی برابری کے قیام کے لئے لازم ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ فیصلہ سازی کا عمل اور وسائل تک رسائی رکاوٹوں کا شکار نہ ہو تاکہ مرد اور عورتیں ایک ثمرآور زندگی میں اپنا برابر حصہ ملا سکیں۔

اپنی ذاتی ترقی و نشوونما سے متعلق اہم فیصلے کرنے کا اختیار خواتین کی خودمختاری کہلاتا ہے۔ یہ خواتین کو زندگی کے ہر پہلو میں آزادی دیتا ہے، جس میں ذہنی، فکری اور سماجی رکاوٹوں کی پرواہ کئے بغیر درست فیصلے کرنے کی آزادی سمیت ہر طرح کی آزادی شامل ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کا مقصد سماجی نظام میں برابری پیدا کرنا ہے تاکہ مرد اور خواتین ہر میدان میں برابر ہوں۔ کسی بھی ملک کو روشن مستقبل سے روشناس کرانے اور معاشرے اور خاندان کو پھلنے پھولنے میں مدد دینے کے لئے خواتین کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ دورِ قدیم میں خواتین کے ساتھ مردوں کی طرح برابر سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن  آج کے دور میں کسی بھی ملک کے لئے خواتین کی ترقی سے مراد یہی ہے کہ انہیں مردوں کے برابر حیثیت حاصل ہو۔

خودمختاری کی بدولت خواتین کو اختیار مل جاتا ہے کہ وہ نہ صرف ذاتی بلکہ سماجی ترقی و نشوونما کے فیصلے بھی کر سکیں۔ یہ خواتین کا حوصلہ بڑھاتی ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں، آزاد ہوں، باوقار اور خوددار ہوں، ان کے اندر اس قدر اعتماد ہو کہ ہر طرح کے مشکل حالات کا مقابلہ کر سکیں اور سماجی و سیاسی ترقی کی مختلف سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے حصہ لے سکیں۔ پرانے وقتوں میں خواتین خاندان اور معاشرے کے ہاتھوں ناروا سلوک کا نشانہ بنتی رہیں۔ انہیں تعلیم نہ دی گئی اور محض گھر کے کاموں تک محدود رکھا گیا۔ وہ اپنے حقوق سے یکسر بے خبر رہیں۔ خواتین ملک کی آبادی کا تقریباً نصف بنتی ہیں اس لئے ملک کی ترقی کے لئے اس نصف آبادی کی خودمختاری بہت ضروری ہے۔

خواتین کو خودمختار بنانے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ افراد اور حکومتوں کو چاہئے کہ وہ مل کر اس کے لئے کام کریں اور اسے ممکن کر دکھائیں۔ لڑکیوں کی تعلیم لازمی ہونی چاہئے تاکہ خواتین پڑھ لکھ سکیں اور اپنی زندگیاں بہتر بنا سکیں۔ خواتین کو ان کی صنف سے قطع نظر زندگی کے ہر شعبے میں برابر مواقع ملنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ انہیں ہر کام کا معاوضہ بھی مردوں کے برابر ملنا چاہئے۔

خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے ایک اور اقدام بھی بہت ضروری ہے، وہ ہے کم عمری کی شادی کا خاتمہ جو دیہی علاقوں میں عام سی بات ہے۔ ایسے پروگرام شروع ہونے چاہئیں جو کسی بھی مالی بحران کی صورت میں خواتین کو اپنا دفاع خود کرنے کے قابل بنائیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ طلاق اور بدسلوکی یا زیادتی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ کئی خواتین معاشرے کے ڈرکے مارے تعلق بچانے کے لئے ہر ظلم سہتی رہتی ہیں۔ والدین کو اپنی بیٹیوں کی تربیت کے دوران انہیں بتانا چاہئے کہ میت کی شکل میں آنے سے بہتر ہے کہ طلاق لے کر گھر آ جاؤ۔

خواتین کی خودمختاری کو صحیح معنوں میں حقیقت کا روپ اس وقت ملے گا جب خواتین کے حوالے سے معاشرے کے رویوں میں تبدیلی آئے گی، ان کے ساتھ باقاعدہ ادب واحترام  پر مبنی، باوقار  سلوک کیا جائے گا، اور ان کے ہر معاملے میں انصاف اور برابری سے کام لیا جائے گا۔’

:تحریر

ارم مذمل

Leave a comment

Skip to content