“میں نہیں چاہتی کہ عورت کو مردوں پر اختیار ملے، میں چاہتی ہوں کہ عورت کو خود پر اختیار ملے”۔ میری شیلے
قیادت ہو یا معاشرت، معیشت ہو یا سیاست، عورت کو ہمیشہ اس کے اصل حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اسے اظہار کی آزادی ملتی ہے نہ قیادت کا منصب۔ کام کی جگہ پر ہراسیت ہو یا زبردستی کی شادی، تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں ہوں یا بنیادی نوعیت کا صنفی امتیاز، سبھی اس کے حصے میں آتے ہیں۔ خواتین کو عام طور پر ‘صنفِ نازک’ کے طور پر پیش کر کے مردوں سے کمتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لئے لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت کا کام ہے کہ گھر بیٹھے، بچوں کی دیکھ بھال کرے، لوگوں سے پوشیدہ رہے، اور گھر بار کی ذمہ داریاں نبھائے۔ کئی لوگ انہیں محض ‘شو پیس’ سمجھتے ہیں، جسے بنا سنوار کر رکھا جائے اور لوگوں کے سامنے بنا سنوار کر اس کی قیمت لگائی جائے۔
عورت میدان عمل میں قدم رکھے تو اس پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں اور اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اس لئے عورت وہ سب کچھ نہیں کر سکتی جو وہ چاہتی ہے۔ معاشرہ، لوگ، لوگوں کی ذہنیت، اسے قبول نہیں کرتے۔ عورت کو ہمیشہ نااہل سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس کے اندر طاقت ہے، عزم ہے، امید ہے، پھر ایسا کیوں؟ اسے کم ازکم ایک موقع تو دیں۔ ہماری خواتین ہر طرح کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنا آپ ٹٹولیں تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ وہ اگر ٹھان لیں اور انہیں اگر درست راہ دکھا دی جائے تو وہ معجزے برپا کر سکتی ہیں۔
پاکستان میں آج بھی زیادہ تر علاقوں میں قدامت پسندی کا راج ہے جہاں خواتین کو ووٹ دینے کے بنیادی آئینی حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ اس سے رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور انہیں لگتا ہے جیسے وہ بیکار سی چیز ہیں، انہیں ہمیشہ پیچھے رکھا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ فیصلے کرنے کی آزادی، نقل وحرکت کی آزادی، اظہار کی آزادی، یہ سب بنیادی انسانی حقوق ہیں۔ یہ حقوق نسواں کی بدیسی باتیں نہیں بلکہ وہ حقوق ہیں جن کا ہر فرد، ہر انسان حقدار ہے۔
لوگ بڑے شوق سے خواتین کو کہہ دیتے ہیں کہ مرد کے مقابلے میں کھڑی نہ ہوں، اور اس کے سامنے اپنی ہار مان لیں۔ کئی عورتیں ہار مان لیتی ہیں، اپنے خوابوں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہیں، خاص طور پر جب انہیں مردوں کے اس معاشرے میں اپنا آپ تن تنہا نظر آتا ہے۔ انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کو ہی لے لیں، زمانہ چاہے جتنا جدید ہو گیا ہے لیکن خواتین کو آج بھی دنیا کے ہر علاقے میں صنفی امتیاز کا سامنا ہے۔ لڑکی جس دن جنم لیتی ہے، اس کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک شروع کر دیا جاتا ہے، اس کی مرضی پوچھے بغیر اس کے مستقبل کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ اسے پڑھایا لکھایا جائے تو عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ آرٹس والے مضمون رکھ لو، یہی تمہارے لئے بہتر ہیں۔ یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ لوگ اسے اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ اپنے فیصلے اپنی پسند ناپسند کے مطابق کر سکتی ہے۔ ان غلط فہمیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کرنا ہو گا۔
اگرایک عورت ہر مہینے کی مشکل جھیل سکتی ہے اور بچے کو بھی جنم دے سکتی ہے تو وہ اس کانٹوں بھری دنیا کامقابلہ بھی کر سکتی ہے۔ عورت اگر ذہنی طور پر مضبوط ہو سکتی ہے تو جسمانی لحاظ سے بھی طاقتور ہو سکتی ہے۔ ہمیں خواتین کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھنے کی روش ترک کرنا ہو گی۔ وہ زندگی کی دوڑ میں اپنا حصہ بخوبی ملا سکتی ہیں اور مخالف صنف کی طرح برابر مواقع اور آزادی کی بھی حقدار ہیں۔
“عورت نہ صرف وہ سب کچھ کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے، بلکہ وہ اس سے بہت بہتر بھی کر کے دکھا سکتی ہے!”
اس حقیقت کو ثابت کرنے کی ایک بہترین مثال موجودہ حالات ہیں جب پوری دنیا کرونا وائرس کی وباء کی لپیٹ میں ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جن ممالک کی قیادت خواتین کر رہی ہیں وہاں وائرس کے پھیلاؤ پرکہیں بہتر طریقے سے قابو پا لیا گیا۔
مرد اور عورت جب مل کر کام کرتے ہیں، کسی کے ساتھ امتیاز اور تعصب نہیں برتا جاتا تو معاشرہ زیادہ تیزی سے اور زیادہ عمدہ طریقے سے ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کرتا ہے۔ تاہم حکومت کی طرف سے اقدامات بھی ضروری ہیں کہ وہ ایسے ادارے قائم کرے جو معاشرے میں اس تیزی سے بڑھتی عدم مساوات کو دور کرنے میں مدد دیں۔ آج کی خواتین کو آنے والے دور کی خواتین کی خاطر اپنا آپ منوانا ہو گا۔ یہ وہی معاملہ ہے کہ ‘ابھی نہیں تو کبھی نہیں!’
:تحریر
ماہ رخ شاہد