تیزی سے بدلتے ماحول میں  اصل توجہ اس جانب بڑھ رہی ہے کہ محض اچھی انتظامی قیادت یا مینجمنٹ سے بات نہیں بنے گی بلکہ اصل ضرورت موثر قیادت کی ہے اور حالیہ عرصے کے دوران خواتین نے ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ نہ صرف گھر کو اچھے طریقے سے بنا سکتی ہیں بلکہ معاشرے کی قیادت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا فرض بھی بخوبی نبھا سکتی ہیں۔ انتخابی سیاست میں خواتین نے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، قومی قیادت کے کئی اعلیٰ عہدوں تک پہنچ کر دکھایا ہے، اور دنیا بھر کی پارلیمانوں میں ریکارڈ تعداد میں نشستیں اپنے نام کر چکی ہیں۔ تاہم جو خواتین قیادت کے عہدوں تک پہنچنے کی خواہش دل میں لئے بیٹھی ہیں، ان کی راہ میں کئی مشکلات درپیش ہیں۔ انہیں اکثر ترقی کی سیڑھی کی اگلی منزلوں کے لئے اپنی موزونیت ثابت کرنے کے لئے کہیں زیادہ کٹھن امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ بہرحال اپنی راہیں آپ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر ایک موثر لیڈر کی خوبیاں اور مہارتیں پیدا کریں اور اپنی صنف یا شناخت سے قطع نظر انہیں اپنے ذاتی طرزقیادت کا حصہ بنائیں۔ اس کے علاوہ آپس میں، گروپ کی شکل میں تبادلہ خیالات اور بحث مباحثوں سے خواتین کے اندر ابلاغ، گفت وشنید اور اپنی بات کہنے اور منوانے کی مضبوط صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں جو انہیں مردوں کے ماحول میں کام کرتے وقت کامیابی تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں۔

اس طرح انہیں پتہ چلتا ہے کہ جواب میں جارحانہ طرزعمل اپنائے بغیر اپنی بات کہنے والا انداز کس طرح اپنانا ہے اور اپنے بارے میں یہ امیج کس طرح پیدا کرنا اور اسے مضبوط بنانا ہے کہ آپ جو بھی بات کرتے ہیں پورے وثوق سے کرتے ہیں۔ انہیں ان مفید طریقوں کا پتہ چلتا ہے جو انہیں اپنی ٹیم کی قیادت کرنے، اپنی ٹیم کے ارکان کو اپنی اپنی جگہ بااختیار بنانے اور انہیں آگے بڑھنے پر مائل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ خواتین کو قیادت کی عملی مہارتیں سیکھنے اور ہر طرح کے کمرشل اور سرکاری اداروں میں کام کرنے والے اپنے جیسے لوگوں کے علم اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے مواقع فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے اور یہ کام حکومت ہی کر سکتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں لاتعداد خواتین اپنے کاروبار شروع کر چکی ہیں اور انہیں کامیابی سے چلا رہی ہیں۔ کامیابیوں کا یہ سفر ہرگز آسان نہ تھا۔ منزل تک پہنچنے کی راہ میں انہیں بے پناہ مشکلات پیش آئیں اور لاتعداد رکاوٹوں کو پار کرنا پڑا۔  انہیں معاشرے کے امتیاز اور شکوک وشبہات کو بھی جھیلنا پڑا اور دوسروں پر اپنی معتبر حیثیت ثابت کرنے کے لئے مردوں کی نسبت کہیں زیادہ محنت کرنا پڑی۔ خواتین کے بارے میں جگہ جگہ یہ تاثر پیدا ہوا کہ وہ بے جوڑ ہیں، ساتھ مل کر نہیں چل سکتیں۔ اس کا سبب ایک طرف عام لوگوں میں پھیلی باتیں اور میڈیا پر خواتین کو پیش کرنے کے وہ انداز تھے جو اکثر خواتین کی قیادت کے بارے میں دقیانوسی سوچ کی چادر میں لپٹے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب قیادت کے حوالے سے بعض خواتین کے انفرادی تجربات میں اس چادر کو جھٹک کر اتار پھینکنے کی کوشش کی گئی۔ خواتین کی قیادت کے بارے میں لاتعداد تحقیقی سرگرمیوں پر کام ہو چکا ہے۔

ان تحقیقی سرگرمیوں کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین نے بڑے تواتر کے ساتھ مثالی قیادت کا مظاہرہ کیا اور کئی خواتین ایسی تھیں جو قیادت کا قابل ذکر تجربہ رکھتی تھیں۔ ان تحقیقی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے افراد نے لوگوں سے کام لینے کی صلاحیتوں پر خواتین کو سب سے زیادہ سکور دیا اور جن شعبوں میں ذہنی یا سٹریٹجک مہارتوں کی ضرورت پڑتی ہے ان میں سکور سب سے کم رہا۔ خواتین کو جب قیادت کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے قیادت کی تعلیم بنیادی طور پر مشاہدے اور تجربے سے حاصل کی۔ دیگر تحقیقی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی معلومات کو نمونے کی تین مختلف کیفیتوں میں اکٹھا کیا گیا اور اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی کہ آیا مرد مینجرز اور خواتین مینجرز کے طرزقیادت میں کوئی فرق پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں براہ راست رپورٹوں کا مشاہدہ کیا گیا اور ‘ملٹی فیکٹر لیڈرشپ’ کا سوالنامہ استعمال کرتے ہوئے تبدیلی کے عمل اور روزمرہ سرگرمیوں کی قیادت میں دونوں کے انداز میں پائے جانے والے فرق کا جائزہ لیا گیا۔ تین نمونوں میں خواتین لیڈروں کی ریٹنگ مردوں اور خواتین دونوں کی براہ راست رپورٹوں کی بنیاد پر کی گئی جن کے مطابق تبدیلی کے عمل میں قیادت کے بعض اہم پہلو(یعنی ان کی شخصیت کا کرشماتی پہلو، ایک ایک فرد اور ایک ایک چیز پر پوری توجہ دینا) ، مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ تواتر کے ساتھ دیکھنے میں آئے۔

اگرچہ نقد اثر بظاہر معمولی سا تھا لیکن ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبدیلی کے عمل میں قیادت کے تقاضے نبھانے ہوں تو خواتین کسی بھی طور مردوں سے کم نہیں۔ بلکہ سچ بات تو یہ ہے کہ وہ ان سے بہتر ہیں۔ ریٹنگ کرنے والوں کی صنف سے نتائج پر کوئی خاص فرق دیکھنے میں نہیں آیا۔

صنف اور قیادت کی بات کریں تو ایک بات طے ہے کہ خواتین نجی اور سرکاری دونوں اداروں کی قیادت میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ کارپوریٹ ماحول میں کیونکہ زیادہ تر چیزوں پر مردوں کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے خواتین لیڈروں کو کچھ خاص مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین چونکہ کمتر حیثیت کے اقلیتی گروپ سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان کے گھل مل جانے سے ثقافتی تقاضوں کے مطابق ڈھلنے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، شناخت کا مثبت احساس برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، محرومی اور تنہائی کا احساس جنم لیتا ہے، ہراسیت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور کئی دیگر حوالوں سے بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آخری بات، جو اپنی جگہ بڑی بات ہے کہ اگرچہ متعصب روئیے ہر جگہ امتیازی طرزعمل کو جنم نہیں دیتے لیکن ان رویوں کے ہاتھوں قیادت کے عہدوں تک خواتین کی رسائی محدود ضرور ہو سکتی ہے اور جب وہ ان عہدوں پر فائز ہوں تو جانچ پرکھ یا اویلیویشن کی سرگرمیوں میں امتیازی سوچ کا اثر بڑھ جاتا ہے۔ سماجی ماہرین نے متعدد تحقیقی سرگرمیوں کے ذریعے قیادت کے عہدوں تک خواتین کی رسائی کا جائزہ بھی لیا ہے جن میں مراجعت یا ریگریشن کا طریقہ استعمال کیا گیا۔

بہرحال یہ بات  ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ہر عورت کی رائے اور خیالات مختلف ہوتے ہیں اس لئے محض ایک عورت سب کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔ ہمیں مزید اقدامات کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ جن خواتین کی شخصیت میں قیادت کے کسی خاص انداز کی جھلک موجود ہو انہیں موقع ملنا چاہئے اور ان کی نمائندگی بھی ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ اس حق کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں خواتین کو بھی تعلیم دینا ہو گی کیونکہ خواتین کی تعلیم پورے معاشرے کی تعلیم ہے۔

اکیسویں صدی میں لاتعداد خواتین حکومتی اداروں کا حصہ بن رہی ہیں اور ان کی سرپرستی اور رہنمائی واقعی اہم ہے تاکہ وہ اپنے کیریئر میں آگے بڑھ سکیں اور انہیں دیکھ کر دوسری خواتین بھی اس میدان میں قدم رکھنے پر مائل ہو سکیں۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ خواتین اتفاق رائے کی
بنیاد پر قیادت کا انداز اپنائیں گی۔ یہی وہ راہ ہے جس پر چلتے ہوئے طاقت اور اختیار خواتین کو نہیں بدلے گا بلکہ خواتین طاقت اور اختیار کو بدلیں گی

:تحریر

ارم اختر

Leave a comment

Skip to content