پاکستان میں خواتین کی خودمختاری کا معاملہ ہم میں سے کسی کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ اپنی روزمرہ زندگی میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، جن تجربات سے گزرتے ہیں اور جو واقعات پیش آتے ہیں، ان سب میں کہیں نہ کہیں اس کی جھلک ضرور نظر  آتی ہے۔ یہ الگ بات کہ ان میں سے کتنے واقعات، تجربات یا مشاہدات ہیں جنہیں میڈیا کی توجہ نصیب ہوتی ہے اور کتنے ایسے ہیں جو نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ ستمبر 2020 میں موٹر وے پر جو واقعہ پیش آیا اس نے نہ صرف پورے ملک بلکہ دنیا کی توجہ حاصل کر لی۔ لیکن یقیناً یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا اور شاید آخری بھی نہیں ہو گا۔ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر پاکستانی خواتین کی حالت زار کے بارے میں خبریں اور رپورٹیں بڑے تواتر کے ساتھ سامنے آتی رہتی ہیں لیکن عملی  طور پر ان کے جواب میں شاید ہی کچھ ہوتا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی مرکزی رپورٹ “گلوبل جنڈر گیپ انڈکس رپورٹ، 2020”  میں پاکستان کی کارکردگی بہت ناقص رہی اور 153 ممالک میں اس کا رینک 151 رہا جو صرف عراق اور یمن سے بہتر ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حقیقت کیا ہے!

یہ بات بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ خواتین اور حقوق کی خاطر سرگرم دیگر گروپ کشیدہ اور ناسازگار ماحول کے باوجود اپنی آواز مسلسل بلند کر رہے ہیں۔ اس ماحول کا صحیح نظارہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب عورت مارچ کو ملک کی کئی عدالتوں میں چیلنج کر دیا گیا اور یہاں تک کہ منتظمین کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔ لیکن ایک موضوع جس پر بحث نہیں ہوتی اور جو خواتین کی خودمختاری کی تحریک میں رکاوٹوں کا باعث بھی بنتا ہے، وہ ہے حقوق نسواں کی سرگرمیوں میں اپنائی جانے والی پسند ناپسند پر مبنی سوچ۔

اس حقیقت کی ایک مثال ستمبر 2020 میں ہی سندھ کے علاقے تھر سے سامنے آنے والا مومل میگھوار کا معاملہ ہے۔ اس میں اور موٹروے والے واقعہ میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے لیکن پاکستان کا مرکزی میڈیا ہو یا دانشور حلقہ، کسی نے اسی طرح زوردار طریقے سے آواز بلند نہ کی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں تین افراد نے ایک نوجوان لڑکی کو ریپ کا نشانہ بنایا۔ لڑکی کے والد نے مقامی تھانے میں مجرموں کے خلاف مقدمہ درج کرایا جن کا تعلق اسی گاؤں سے تھا۔ انتہائی مایوس کن بات یہ ہے کہ پولیس نے اس پر کچھ بھی نہ کیا، دوسری طرف متاثرین کا تعلق چونکہ محروم طبقے سے تھا اس لئے وہ مناسب طریقے سے مقدمے کی پیروی نہ کر سکے اور ملزمان ضمانت کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ مقدمہ چلا لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے یہ بھی تاخیر کا شکار ہو گیا۔ بااثر مجرمان نہ صرف اپنی ضمانت کرانے میں کامیاب ہو گئے بلکہ وہ متاثرہ لڑکی کو بلیک میل بھی کرتے رہے، یہاں تک کہ رواں مہینے کے شروع میں اس نے گاؤں کے کنوئیں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔

یہ تو صرف ایک واقعہ ہے۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں اسی طرح کے حالات و واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح عورت مارچ جیسی سرگرمیاں بھی صرف ملک کے بڑے بڑے شہروں تک محدود رہتی ہیں جن میں دیہی خواتین کو پوری نمائندگی نہیں ملتی حالانکہ حالات کا زیادہ تر بوجھ انہیں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہاں یہ بات واقعی قابل ذکر ہے کہ سکھر میں ہونے والے مارچ میں پسے ہوئے طبقات کی خواتین کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملی جو بلاشبہ منتظمین کا ایک لائق تحسین اقدام ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سندھ میں اقلیتی لڑکیوں کے زبردستی مذہب تبدیلی کے واقعات جو زیادہ تر زیریں سندھ کے علاقوں میں ہوتے ہیں، ان کی خبریں آپ کو میڈیا پر کبھی نہیں ملتیں، محض اس لئے کہ سندھ کے ان علاقوں میں زیادہ تر چھوٹی ذات کے ہندو رہتے ہیں۔ زیریں سندھ میں ہی ایک اور رجحان بھی انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ حالیہ سالوں کے دوران بالعموم خودکشی اور بالخصوص خواتین کے خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے جس پر پالیسی سازوں اور اہل اقتدار کو ضرور توجہ دینی چاہئے۔ آخری بات، جس کا ذکر یہاں ضروری لگتا ہے، اور جو خواتین اور حقوق کی خاطر کام کرنے والے دیگر گروپوں کی توجہ مانگتی ہے، یہ ہے کہ آپ کی سرگرمیوں سے کسی کے اندر بیگانگی کا احساس پیدا نہیں ہونا چاہئے اور اس تاثر کو مٹانا ازحد ضروری ہے کیونکہ یہ آپ کی تحریک اور جدوجہد کے لئے ہرگز کوئی اچھا شگون نہیں۔

:تحریر

آنند کمار

Leave a comment

Skip to content