ایک بوجھ ہے، ذمہ داری ہے، بدنصیبی کی نشانی ہے… پاکستان میں خواتین خاص طور پر بیٹیوں کے لئے نجانے کس کس طرح کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ بس یہی سمجھتا ہے کہ عورت کا کام ہانڈی چولہے کے سوا کچھ نہیں اور اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اچھی سے اچھی بیوی بنے۔ زبان نہ کھولے! کسی کو یہ سوال کرنے کا حق نہیں کہ آخر اسے محض انہی کاموں تک محدود کیوں رکھا جائے!!!
عورت کسی بھی معاشرے کی تشکیل کرتی ہے۔ وہ اپنے خاندان کی زندگی بناتی ہے، خالی مکان کو گھر میں تبدیل کرتی ہے، بچوں کی پرورش کرتی ہے اور انہیں اچھا شہری بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ بحیثیت مجموعی اس کا کام ہے کہ ایک مثالی خاندان، مثالی معاشرے اور مثالی ریاست کی تعمیر کرے۔ البتہ پاکستان جیسے ملکوں میں خواتین تعلیم، صحت، فیصلہ سازی، اور اس طرح کے کئی بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ زمانہ بدل چکا ہے اور عورتوں کو آج تمام حقوق میسر ہیں لیکن یہ محض ایک غلط فہمی ہے۔ دیہی علاقوں کی تو بات ہی نہ کریں جہاں خواتین کو بنیادی انسانی حقوق بھی میسر نہیں ہیں،جن علاقوں میں انہیں صحت اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ملتی ہے وہاں بھی انہیں ہر طرح کے حالات میں عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
صنفی مساوات کے اعتبار سے پاکستان ان ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہے جو سب سے پیچھے ہیں۔ لاتعداد خواتین تشدد کو محض اس لئے برداشت کر رہی ہیں کہ انہوں نے آواز اٹھائی تو لوگ ان پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں گے اور الزام انہی کو دیں گے۔ ان کے گھر والے بھی ان کی حمایت نہیں کرتے اور انہیں ہر حال میں قربانی دینے، برداشت کرنے اور مصلحت سے کام لینے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ انہیں یہی ڈر کھائے جاتا ہے کہ طلاق ہو گئی یا علیحدگی ہو گئی تو لوگ کیا سوچیں گے اور کیا کہیں گے۔ گھر والوں اور عزیز رشتہ داروں کا یہی دباؤ رہ جاتا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے تمہیں اپنی شادی کو بچانا ہے۔ آخر کیوں؟ یہی سب کچھ اگر کسی مرد کے ساتھ ہوتا تو کیا پھر بھی لوگ اسے یہی کہتے کہ برداشت کرو، اپنی انا کو مار دو اور بس اپنے رشتے کو بچاؤ۔ کوئی کسی مرد کو کبھی یہ بات نہیں کہے گا کیونکہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ ان کے نزدیک عورت ایک بے وقعت، بے معنی سی چیز ہے۔
شوہر گالیاں دیتا ہے، مار پیٹ کرتا ہے لیکن عورت چاہتے ہوئے بھی یہ رشتہ ختم نہیں کر سکتی، اس کی ایک اور بڑی وجہ بھی ہے۔ وہ مالی لحاظ سے اپنے شوہر کی اس قدر محتاج ہے کہ اپنے اخراجات بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ والدین بیٹیوں کی تعلیم کے بارے میں نہیں سوچتے یا اس پر توجہ نہیں دیتے، اور اگر کچھ والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلواتے بھی ہیں تو اعلیٰ تعلیم کے لئے یا کام کرنے کے لئے وہ انہیں گھر سے باہر جانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ اس طرح عورت مالی لحاظ سے اپنے گھر کے دیگر افراد (مثلاً والد، بھائی یا شوہر) کی محتاج بن کر رہ جاتی ہے۔
عورت کو بچپن سے ہی اس کے حقوق دے دئیے جائیں تو اسے کسی طرح کے تشدد، ناانصافی، ہراسیت وغیرہ کو برداشت نہ کرنا پڑے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ عورت کو تعلیم، صحت، روزگار، فیصلہ سازی، وغیرہ سمیت اس کے سارے حقوق دے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بھی اسی طرح تعلیم دلوائیں اور اسی طرح سارے حقوق دیں جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو دیتے ہیں۔ کسی بھی عورت کے ساتھ محض اس کی صنف کی بنیاد پر امتیاز نہ برتا جائے کیونکہ سب سے پہلے وہ ایک انسان ہے۔ عورت کی قابلیت صرف گول روٹی بنانے تک ہی محدود نہیں، وہ ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے اور وہ بھی اپنے گھر والوں کے سر فخر سے بلند کر سکتی ہے۔
تحریر:
ام البنین