خواتین کی خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو اس قدر بااختیار اور طاقتور بنا دیا جائے کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔ صدیوں سے خواتین مردوں کے ہاتھوں بے پناہ مشکلات اٹھاتی چلی آ رہی ہیں۔ تاریخ کے ابتدائی ادوار میں تو ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا تھا جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ سارے حقوق جس طرح مردوں کی ملکیت سمجھے جاتے تھے، اور یہی حال ووٹ کے بنیادی حق کا تھا۔ جیسے جیسے وقت کا پہیہ آگے بڑھا، خواتین کو اپنی قوت کا احساس ہونے لگا۔ وہیں سے خواتین کی خودمختاری کے انقلاب کا آغاز ہوا۔
خواتین کو چونکہ اپنے فیصلے کرنے کی اجازت نہ تھی اس لئے خودمختاری کا یہ احساس تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آیا۔ اس سے ان کے اندر اپنے حقوق کی آگاہی پیدا ہوئی اور انہیں اندازہ ہوا کہ مردوں پر انحصار کرنے کے بجائے معاشرے میں اپنی جگہ کس طرح بنانا ہے۔ پھر اس حقیقت کا ادراک بھی ہوا کہ محض صنف کی بناء پر حالات کسی کے حق میں نہیں ڈھل سکتے۔ البتہ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ سب کیوں ضروری ہے تو اندزہ ہوتا ہے کہ ابھی ایک طویل سفر باقی ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک کو لے لیں، چاہے وہ کتنا ہی ترقی پسند کیوں نہ ہو، اس کی تاریخ خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات سے بھری ہو گی۔ دوسرے لفظوں میں خواتین جہاں آج کھڑی ہیں، وہاں تک پہنچنے کے لئے انہیں دنیا کے ہر حصے میں بغاوت کا علم بلند کرنا پڑا۔ مغربی ممالک میں ترقی اور بہتری کا یہ سفر آج بھی جاری ہے لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کی خواتین خودمختاری کے معاملے میں ابھی بھی بہت پیچھے ہیں۔ انتہائی تابعدار مزاج والی پارلیمانوں میں بالکل معمولی تعداد اور اسی بناء پر وزارتی اور سرکاری عہدوں پر برائے نام موجودگی، خواتین کے لئے مزید رکاوٹیں پیدا کر دیتی ہے، خاص طور پر جب آپ وسائل تک غیرمساویانہ رسائی اور بنیاد سے ہی تعصب کا شکار ڈھانچوں اور قواعد و ضوابط کو بھی سامنے رکھتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کو ہمیشہ مسلم دنیا میں خواتین کی خودمختاری کی ایک علامت کی حیثیت حاصل رہے گی۔ وہ صرف 35 سال کی عمر میں پاکستان کی پہلی، جمہوری طور پر منتخب خاتون وزیراعظم بنیں اور اس کے بعد دوسری بار بھی اس عہدے کے لئے منتخب ہوئیں لیکن 27 دسمبر 2007 کو انہیں قتل کر دیا گیا۔ وہ مسلم دنیا کی خواتین کی کامیابی کا بامِ عروج ہیں۔ وہ پاکستان کو جدید بنانے کے مقصد کے ساتھ آگے آئیں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ “میں جس حکومت کی قیادت کر رہی ہوں وہ لوگوں کو امن، سلامتی، وقار اور ترقی کے مواقع دیتی ہے”۔
ایسی ہی ایک اور خاتون رہنما ہمیں فاطمہ جناح کی صورت میں ملیں۔ پاکستان کی تحریکِ آزادی کے دوران انہوں نے خواتین کو نفسیاتی طور پر تیار کیا کہ وہ اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جائیں۔ ان کی لاتعداد تصویریں موجود ہیں جن میں وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کے پیچھے پیچھے نہیں بلکہ ان کے قدم سے قدم ملا کر چلتی نظر آتی ہیں۔ لہٰذا، پیغام بالکل واضح اور ببانگ دُہل تھا کہ دونوں بہن بھائی برابر ہیں اور قیادت کا فریضہ خواتین بھی انجام دے سکتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کی خواتین مینجمنٹ اور قیادت کی بے پناہ استعداد رکھتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں بااختیار بنایا جائے، کیونکہ انہیں اگر اس کا موقع نہ دیا گیا تو ہماری کمیونٹی اور ہماری یہ دنیا کئی عظیم لیڈروں سے محروم رہ جائے گی۔ کسی بھی ملک اور اس کی معیشت کی ترقی و خوشحالی کے لئے خواتین کی خودمختاری انتہائی اہم ہے۔
تحریر:
علشبہ فاروق