مارچ 2020 کے ساتھ ہی کرونا وائرس کی عالمی وباء پاکستان میں بھی پہنچ گئی۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے اندر شدید معاشی کساد بازاری نے ملک کو لپیٹ میں لے لیا جس نے کمزور طبقات کے لاتعداد افراد کے ذرائع معاش کو بری طرح متاثر کیا۔ پاکستان، جہاں صنفی عدم مساوات پہلے ہی اپنی کئی شکلوں میں موجود ہے، وہاں کرونا وائرس نے انہیں زیادہ نمایاں کر دیا۔

معاشی لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کی تقریباً نصف آبادی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات میں شدت آ گئی اور صحت کی بنیادی سہولیات بھی پہنچ سے باہر ہو کر رہ گئیں۔

خواتین اور لڑکیوں پر تشدد بھی ایک عالمی وباء ہے جو اوسطاً ہر 3 میں سے ایک خاتون کو ان کی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر متاثر کرتی ہے اور پاکستان کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ پاکستان کے آبادی و صحت سروے 18-2017 سے ظاہر ہوتا ہے کہ 15 سے 49 سال عمر کی 28 فیصد خواتین 15 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد کسی نہ کسی مرحلے پر جسمانی تشدد کا سامنا کر چکی ہیں جبکہ 6 فیصد جنسی تشدد کی زد میں بھی آ چکی ہیں۔ جو خواتین اپنی زندگی میں کبھی بھی حاملہ ہوئیں، دوران حمل ان میں سے 7 فیصد کا واسطہ تشدد سے پڑا جبکہ شادی شدہ خواتین میں سے 34 فیصد کو شریک حیات کے ہاتھوں جسمانی، جنسی یا جذباتی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ شریک حیات کے ہاتھوں تشدد میں جذباتی تشدد (26 فیصد) سب سے زیادہ عام ہے جس کے بعد جسمانی تشدد (23 فیصد) آ جاتا ہے۔ شادی شدہ خواتین میں سے 5 فیصد اپنے شوہر کے ہاتھوں جنسی تشدد کا سامنا کر چکی ہیں۔ عام رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وباء کے دوران بیروزگاری کی شرح بڑھ گئی جس نے ڈپریشن اور جارحانہ مزاج میں بگاڑ پیدا کیا اور یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر گھریلو بدسلوکی اور بعض دیگر اقسام کے  صنفی تشدد کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ معذور خواتین اور خواجہ سراؤں کے لئے بھی گھریلو تشدد کا خدشہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

کرونا وائرس کی وباء کے دوران علاج معالجہ کی سہولیات میں خواتین سب سے آگے رہیں۔ اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم، او ای سی ڈی کے مطابق عملہ صحت میں 70 فیصد خواتین شامل ہیں۔ زیادہ تر خواتین کیریئر کے طور پر تعلیم اور صحت کے شعبوں کو اپناتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ایسی خواتین کا تناسب تقریباً 20 فیصد ہے جو اس وقت آمدنی والا کوئی کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے بیشتر غیررسمی منڈی میں کام کرتی ہیں جہاں اجرتیں کم ہیں۔ صحت عامہ کے حوالے سے ہنگامی حالات پیدا ہونے سے کم اجرت والی یہ منڈیاں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے باعث معاشی سرگرمیاں بند ہونے سے مردوں کی نسبت خواتین زیادہ متاثر ہوئیں۔ جمہوریت اور انتخابات پر کام کرنے والی تنظیم ‘فافن’ کے ایک سروے کے مطابق حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے اعلان کے ساتھ ہی 26 فیصد خواتین کو ان کی ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا۔

ایک عورت ہونے کے ناطے میری بھی شدید خواہش ہے کہ قومی سیاست میں سرگرم خواتین نمائندگان ان مسائل کے ازالہ پر مضبوط موقف اختیار کریں۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو اسے کرونا وائرس کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے درج ذیل اقدامات پر ضرور عمل کرنا چاہئے:

پارلیمانی فیصلہ سازی میں خواتین کی شمولیت اور قیادت بڑھائی جائے۔  

تمامتر اقدامات کو صنفی تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے پر توجہ دی جائے۔  

وباء کے ضمن میں حکومت جو بھی اقدامات  کر رہی ہے، صنفی نقطہ نظر سے ان کی نگرانی ضرور کی جائے۔  

لوگوں تک معلومات پہنچانے اور شعور و آگاہی بڑھانے کی سرگرمیوں میں خواتین ارکان پارلیمنٹ کے کردار میں اضافہ کیا جائے۔  


تحریر: عنبرین کنول

Leave a comment

Skip to content