“عورت اپنی جگہ ہر لحاظ سے مکمل ہے، وہ اپنے اندر تخلیق کرنے، پالنے پوسنے اور بدل کر رکھ دینے کی طاقت لئے بیٹھی ہے”۔ ڈیانے میری چائلڈ

عورت، دنیا کی آبادی کا نصف ہے، محض کوئی شو پیس نہیں جسے گھر میں سجا کر رکھ دیا جائے، نہ ہی کوئی کمتر انسان ہے جسے کبھی کوئی مواقع نصیب نہ ہوں۔ وہ کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں، اس معاشرے کا برابر حصہ ہے جس میں اس کی برابر شمولیت معیشت، معاشرت اور سیاست کی ترقی میں بے پناہ اضافہ کر سکتی ہے۔ اسے گھر کی چار دیواری تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اس کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لائیں اور اپنے معاشرے میں خوشحالی پھیلائیں۔ وہ محض شاعر کے شعروں میں نظر آنے والی حسن وخوبی کا پیکر نہیں بلکہ اس معاشرے کو بدلنے والی قوت ہے، صلاحیتوں کا ایسا دفینہ ہے جو ایک بار کھل گیا تو انقلاب برپا کر دے گا، پائیدار ترقی کے تشنہ تکمیل خواب کو حقیقت سے آشنا کر دے گا۔

آج کی عورت کو جو اختیار میسر ہے وہ اس کی افتاد سے کہیں کم ہے، اسے اچھی تعلیم نہیں ملتی، ہر غیرضروری بوجھ اس پر لاد دیا جاتا ہے، اس کی اصل صلاحیتوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے نہ کوئی انہیں تسلیم کرتا ہے۔ اسے ایک شے بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور دقیانوسی سوچ کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ‘صنف نازک’ جیسی اصطلاحات اس کے حصے میں ڈال دی گئی ہیں  جن کا پہلا تاثر ہی کمزوری والا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں اس کی عقل کام نہیں کرتی، وہ مردوں کی طرح طاقتور نہیں، اور اسی لئے اسے ہر میدان میں پیچھے رکھا جاتا ہے۔ تعلیم ہو یا صحت، روزگار ہو یا قیادت، اسے برابر حقوق اور مواقع نہیں ملتے۔ فیصلہ سازی ہو یا پالیسی سازی، کہیں اس کی رائے کو مقدم رکھنا تو درکنار، رائے لینا بھی گوارہ نہیں کیا جاتا۔ اداروں، پارلیمانوں اور حکومتوں میں اسے قیادت کے منصب نہیں دئیے جاتے۔ لاتعداد بڑے اداروں کے تنظیمی ڈھانچے میں سرکردہ عہدوں پر آپ کو شاذونادر خواتین دیکھنے کو ملتی ہیں اور یہ حقیقت صنفی برابری پر اقوام متحدہ کی طرف سے طے کئے گئے پائیدار ترقی کے پانچویں مقصد کا منہ چڑاتی نظر آتی ہے۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں عورت کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ وہ مرد کے برابر کام کرتی ہے لیکن معاوضہ کم ملتا ہے۔ کام کی جگہوں پر اسے ہراساں کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے، اور شرمندہ شرمندہ رہنے پر مجبور  کر دیا جاتا ہے۔ جب تک آپ عورت کو برابر مواقع نہیں دیں گے، سازگار ماحول پیدا نہیں کریں گے، کسی بھی شعبے میں بہتری کا خیال بھی محال ہو گا۔

خواتین کو بااختیار بنانے کا مطلب ہے کہ انہیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو للکار سکیں،  اپنی زندگی کے فیصلوں کو اپنے ہاتھ میں لے سکیں، اپنی صلاحیتوں کو کام میں لا سکیں اور صنفی طبقہ بندی کے اس نام نہاد نظام کو ہمیشہ کے لئے دفن کر سکیں۔ ہمیں ان دقیانوسی کرداروں پر نظرثانی کرنا ہو گی جن کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ تو ہے ہی عورتوں کا کام۔ اپنی پچاس فیصد آبادی کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے بغیر ہم سوچ بھی کس طرح سکتے ہیں کہ ہم معاشی ترقی و خوشحالی کی منزل پا لیں گے۔ زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی بھرپور شمولیت کی ضرورت آج پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ محروم طبقات کی خواتین کی سماجی، سیاسی اور معاشی حیثیت میں بہتری لا کر ہی ہم دنیا کے معاشی و سماجی نقشے کو بدل سکتے ہیں۔ خواتین کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جائے، انہیں برابر حقوق دئیے جائیں، کام کی جگہ پر برابر معاوضہ دیا جائے اور برابر مراعات دی جائیں۔

:تحریر

راؤ رضوان صادق

Leave a comment

Skip to content