ہمارے ہاں کتنی خواتین ایسی ہوں گی جن کے ذہن میں کبھی خیال آیا ہو کہ وہ کسی انتخاب میں حصہ لیں یا کسی سیاسی عہدے کے لئے انتخابی مہم چلائیں؟
جن معاشروں میں جمہوری عہدے اور نشستیں کچھ مخصوص گھرانوں کے “ہونہار سپوتوں” کو تحفے کی طرح پیش کئے جاتے ہوں، اور جہاں عام حالات میں خواتین کے لئے میدان سیاست میں زمین دن بہ دن تنگ ہو رہی ہو، وہاں اس طرح کے خیال شاذ ونادر کسی کے ذہن میں آتے ہیں۔ اس کی وجہ محض یہ نہیں کہ ہم لوگ اس خواہش کو دل میں رکھنے والی خواتین کو سیاست کے میدان کارزار میں اترنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ ایک سبب عام لوگوں کے ذہنوں میں پنپنے والی غلط فہمیاں بھی ہیں جن کے ہاتھوں شروع سے دلوں میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ ہمارا یہ سسٹم خواتین کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ چلیں دیکھتےہیں، اصل مسئلہ کیا ہے!
شروع دن سے ہم سنتے آ رہے ہیں اور ہمارے بڑے بوڑھے اور آس پاس کے لوگوں کے لبوں پر ہمیشہ یہی گلہ رہا ہے کہ سیاست دانوں کا رویہ، ان کی کارکردگی ٹھیک نہیں یا ووٹرز کو ان کے حقوق نہیں ملتے، لیکن کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ ان سیاست دانوں کی حدود کیا ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام شروع سے ہمارے اندر “سماجی شعور” ہی پیدا نہیں کرتا۔ یونیورسٹی پہنچتے ہیں تو محض دو ماہ کی انٹرن شپ میں آپ کو سب کچھ سیکھنے، جاننے اور سمجھنے کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے کہ سماجی شعور کیا ہے، فلاحی سرگرمیوں، لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور سماج کے ساتھ مل کر چلنے کی سیاسی سوجھ بوجھ کیا ہے، وغیرہ۔ اتنےمیں لوگ آپ کو القابات سے نوازنا شروع کر دیتے ہیں، “بڑے آئے، بھلا اس عمر میں بھی یہ کوئی کرنے کے کام ہیں، یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں”، وغیرہ وغیرہ۔ سب جذبے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور سب کچھ ہوا ہوا جاتا ہے۔
جس معاشرے میں ہماری پرورش ہوتی ہے اس کی سماجی و سیاسی ساخت کو دیکھ کر آپ کو یقین سا ہو جاتا ہے کہ یہاں ہمارے جیسی تیس پینتیس سال کی، خواب دیکھنے والی کسی نوجوان خاتون کے لئے انتخاب لڑنا تقریباً ناممکن سی بات ہے۔ کوئی ایک آدھ خوش قسمت ہی ایسی ہو گی جس کا کسی بڑے سیاسی خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہو گا اور وہ اپنی سیاسی جدوجہد کے بل پر کہیں پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
بہرحال، امید پردنیا قائم ہے! کچھ بڑی بات نہیں اگلے تیس سالوں میں اس ملک کے شعبہ تعلیم، معاشرت اور سیاست میں کوئی ایسی تبدیلیاں آ جائیں جو اس پورے نظام کا ڈھانچہ بدل کررکھ دیں (جس کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے) اورپھر نوجوان اور پرعزم خواتین بھی آگے آنے لگیں، جنرل نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے لگیں اور جیت بھی جائیں۔ ان تین شعبوں کا جائزہ لینا بہت اہم ہے کیونکہ کسی بھی معاشرے کو جمہوری، سب کی شمولیت پر مبنی اور خوشحال بنانے میں یہ بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ خواتین کی معاشی آزادی ان سب پر حاوی ہے۔
تعلیم کے شعبے میں تبدیلیوں کی ضرورت ہر مرحلے پر ہے کیونکہ بات وہی ہے کہ جو عدم مساوات اس نظام کے بنیادی ڈھانچے میں رچی بسی ہے اس کی وجہ سے آدھی لڑکیوں کی تعلیمی اعتبار سے وہ افزائش اور تربیت نہیں ہوتی کہ وہ سیاسی عمل میں اپنی شمولیت کی اہمیت کو سمجھ سکیں (آپ تعلیم کے کسی بھی مرحلے کو لے لیں، بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لئے ووٹ ڈالنے کی اہمیت کے بارے میں بنیادی سوجھ بوجھ کو بھی سیاسی مباحثوں میں زیربحث لانا ضروری ہے)۔ ملک کو سب سے زیادہ ضرورت ایک ایسے تعلیمی انقلاب کی ہے جس کا نصاب اس طرح بنا ہو کہ یہ مردوں اور عورتوں دونوں میں سیاست کے ساتھ ایک خاص قسم کی وابستگی اور تحریک پیدا کرے۔ جمہوری اقدار کو ایک باقاعدہ شکل ملنی چاہئے جو اس طرح کی ہرگز نہ ہوں کہ ہر طرح کے میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف دلوں میں نفرت کو بھڑکائیں۔
سماجی شعور کسی بھی معاشرے کی ترویج و ترقی میں بھی اپنا حصہ ملاتا ہے، جس میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والے امیدواروں کا دل چاہتا ہے کہ وہ ان لوگوں کی خدمت کریں جنہوں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے انہیں منتخب کیا ہے۔ لیکن اس طرح کی چیزیں آسمان سے نہیں اترا کرتیں، انہیں عمل کے ذریعے کر کے دکھانا پڑتا ہے۔ پاکستان کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، لوگوں کا سماجی اور سیاسی شعور اسی وقت بیدار نظر آیا جب ملک کسی سیاسی شورش، کسی انسانی بحران یا پھر کسی ہنگامی حالات کی لپیٹ میں آیا۔ دوسری جانب، فلاح عامہ تو جیسے کام ہی امیر لوگوں کا ہے جبکہ سماجی ترقی کا عمل صرف بلامنافع بنیاد پر کام کرنے والی تنظیموں کے ہاتھوں کچھ آگے بڑھا ہے جو ریاستی اداروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
اصل میں اس سوچ کو ہماری تعلیم کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے جس کے لئے تدریسی سرگرمیوں میں بہتری لانا ہو گی اور کمزور کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو شروع سے اس عمل کا حصہ بنانا ہو گا اور پھر انہیں سیاسی شعور و آگاہی کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ جس طرح حالات آگے بڑھ رہے ہیں، صوبائی اسمبلیوں میں نئے اور پڑھے لکھے لوگ سامنے آ رہے ہیں اور خواتین، بھلے کوٹہ سسٹم کے ذریعے سہی، مرکزی دھارے کی سیاست میں اپنا حصہ ملا رہی ہیں، اسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب پاکستان میں بھی ہمیں وہ جمہوری نظام دیکھنے کو نصیب ہو گا جس میں خواتین نہ صرف اقتدار کے ایوانوں میں قیادت کا منصب سنبھالیں گی بلکہ ہر سطح کی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بھی بنیں گی۔ سیاسی عمل محض یہی نہیں کہ آپ انتخابات میں حصہ لے کر سیاسی عمل کا حصہ بنیں، بلکہ چھوٹی چھوٹی باتیں اور سرگرمیاں ہیں جو مل کر جمہوریت کو صحت مند بناتی ہیں۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں اور سرگرمیوں کے ذریعے میدان سیاست کا حصہ بنیں اور انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ “کل ہمارا ہے، یعنی ان خواتین کا جو نہ صرف اپنے قول سے بلکہ اپنے عمل سے بھی ثابت کرتی ہیں کہ انہیں کچھ کر کے دکھانا ہے”۔
تحریر: منزہ فاروق