“میں اپنی آواز اس لئے بلند نہیں کرتی کہ چِلا سکوں، بلکہ اس لئے کہ اُن لوگوں کی سنی جائے جن کی کوئی آواز نہیں… ان حالات میں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے جب ہمارے نصف کو روک کر رکھا جا رہا ہے” – ملالہ یوسف زئی

صنفی عدم مساوات کے حوالے سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سیاست ہو یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ، یہ ہر جگہ موجود ہے اور ہر عورت اس سے متاثر ہو رہی ہے۔ مختلف شعبوں میں اکثر مرد خواتین کو پیچھے رکھتے ہیں، مثلاً وہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتیں، وہ  اپنا کاروبار کے پروگراموں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتیں اور  انہیں قیادت کے عہدے دینے کی بات آئے تو آئیں بائیں شائیں شروع ہو جاتی ہے۔  اگر کوئی خاتون اس طرح کے کام کر رہی ہو تو ہمارے معاشرے میں اس پر لیبل لگ جاتا ہے کہ وہ بہت ‘بولڈ’ ہے، بڑی ‘باس’ بنی پھرتی ہے، وغیرہ۔ ہمارے ہاں اچھی عورت کی نشانی یہ ہے کہ وہ سنجیدہ مزاج ہو، چپ چاپ رہے، وغیرہ۔ عورت کے بارے میں معاشرے کی یہ توقعات اسے محدود رکھتی ہیں اور وہ سیاست اور معیشت میں آگے نہیں بڑھ پاتی۔

عدم مساوات کی بات کریں تو دور جانے کی کیا ضرورت ہے، اکثر بیٹیوں کی نسبت بیٹوں کو زیادہ اور بہتر تعلیم دلائی جاتی ہے، یعنی خود والدین ہی ان کے درمیان فرق  برتتے ہیں اور عدم مساوات پیدا کر دیتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کی سوچ یہی ہے کہ لڑکی کی تو شادی ہو جائے گی، اس کی پڑھائی سے والدین کو کیا فائدہ ملے گا، اس لئے دیہی علاقوں میں خاص طور پر والدین بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں اور انہیں تعلیم دلانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ لیکن یہ صنفی عدم مساوات محض پاکستان کے دیہی علاقوں تک ہی محدود نہیں ۔ معیشت میں صنفی عدم مساوات امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی موجود ہے جہاں مجموعی طور پر کل وقتی کام کرنے والی 55 ملین سے زائد خواتین کی آمدنی 2019 میں  مردوں کی نسبت اندازاً 545.7 ارب ڈالر کم رہی۔

سیاست میں صنفی عدم مساوات کی بات کریں تو پاکستان میں یہ اور بھی نمایاں ہے جہاں مردوں کے مقابلے میں خواتین سیاست دانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ دنیا بھر کی پارلیمانوں میں خواتین کی موجودگی 23 فیصد سے بھی کم ہے۔ عرب خطے میں یہ اوسطاً 18 فیصد ہے جبکہ مردوں کا تناسب 77 فیصد سے بھی زیادہ ہے، یعنی اصناف کے درمیان فرق 50 فیصد سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ سیاست میں اکثر سیاسی مخالفین خواتین پر حرف اٹھاتے ہیں کہ انہیں کیا پتہ، سیاست کیا ہوتی ہے؟ ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ نیوزی لینڈ کی چالیسویں وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کو دیکھ لیں۔ انہوں نے سب گھسی پٹی باتوں کو غلط ثابت کر دکھایا اور اپنے نوزائیدہ بچے کے ہوتے ہوئے بھی کرونا وائرس کی وباء جیسے عالمی بحران کے دوران ملک کو اتنے عمدہ طریقے سے چلایا۔ ان کی اس کامیابی کی بدولت ان کا شمار آج دنیا کے مضبوط ترین سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس دقیانوسی سوچ سے نجات حاصل کریں کہ خواتین اچھی لیڈر نہیں بن سکتیں یا وہ کوئی محنت والا کام اچھے طریقے سے نہیں کر سکتیں۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہو گا کہ ہم اپنی بات کرنا  اور اسے منوانا سیکھیں۔  لفظ وہ طاقت ہے جسےکوئی طاقتور انسان بھی نظر انداز نہیں کر سکتا

:تحریر

فاطمہ خرم

Leave a comment

Skip to content