زیادہ تر خواتین کے لئے دنیا کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں رہی لیکن اس کے باوجود بعض خواتین نے ہمت دکھائی اور اپنی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو پاش پاش کر دیا۔ میرا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور اپنی زندگی میں، میں نے خواتین کو دیکھا ہے کہ وہ روکھی سوکھی پہ صبر شکر کر لیتی ہیں اور اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتی ہیں۔ لیکن آج کے دور میں کلیاں چٹک رہی ہیں اور اس بہار کی امید پھوٹ رہی ہے جس میں یہ “صنفِ نازک”، ایک ایسی سخت جان بن کر سامنے آئے گی جو مردانہ سوچ کے غلبے کا مردانہ وار مقابلہ کرے گی۔

خالق نے جو صنف تخلیق کی ہے اس میں ہرگز کوئی نقص نہیں بلکہ معاشرے نے اپنے طور پر طرح طرح کے ایسے فرق پیدا کر دئیے ہیں جن کے ہاتھوں خواتین نسلوں تک لاتعداد مشکلات اور مسائل سے نبردآزما رہ جاتی ہیں۔ جو ان سے اپنا دامن چھڑانے میں کامیاب رہیں انہوں نے درست راہ اپنا لی۔ انہوں نے اپنے اندر ایسی صفات پیدا کر لیں جن کی مدد سے وہ اردگرد کے حالات کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتی چلی گئیں۔ دوسری جانب ایسی خواتین ہیں جو اُسی راہ پر چلتی رہیں۔

کسی بھی قابل اعتماد لیڈر کو دیکھ لیں، اسے پتہ ہوتا ہے کہ کس طرح آگے بڑھنا ہے اور اپنے ساتھ چلنے والے ہر فرد کی مدد بھی کرنا ہے۔ مردوں کے اس معاشرے میں جو چیز عورت کو سر اٹھا کر چلنے کے قابل بناتی ہے، وہ ہے اس کا اپنا اعتماد، اس کی قابلیت جس کی بدولت وہ سب کچھ دیکھ بھال کر چلتی ہے، اور اس کا حوصلہ جس کے بل پر وہ مخالفوں کے ردعمل کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس دور کی عورتوں کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا ہے اور مل کر چلنا ہے۔ عظیم لیڈر اپنے پیچھے چلنے والوں کو کبھی گرنے نہیں دیتا بلکہ وہ ان کی قوت بن جاتا ہے اور انہیں طاقتور بناتا ہے۔

کاروبار ہو یا سیاست، یا چاہے گھر ہی کیوں نہ ہو، وہی خواتین آگے آتی ہیں جو اپنے کام کے تقاضوں کو جانتی ہیں اور اپنی سوچ اس حد تک لچکدار رکھتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ڈھل سکیں۔ وہی عورت زیادہ بااعتماد لیڈر بن سکتی ہے جو لوگوں کے جذبات کی سمجھ بوجھ رکھتی ہو اور اپنے ساتھ چلنے والوں اور بالعموم لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے پر  آمادہ ہو۔ ہر دور کی ایک شاندار مثال محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں جو شاندار ابلاغی صلاحیتوں کی مالک تھیں اور ایک ایسے دور میں فاتح بننے کے لئے پرعزم تھیں جب خواتین سیاست اور معیشت کی دنیا میں پھیلی عدم مساوات سے نبردآزما تھیں۔

بات پھر وہی ہے کہ کام کی جگہ ہو یا پھر ذاتی زندگی، عورت کسی بھی شعبے میں لیڈر بن سکتی ہے۔ جو عورت اپنا سب کچھ اپنے گھر کے نام کر دیتی ہے اور اپنا یہ فریضہ انتہائی احسن طریقے سے انجام دیتی ہے، وہ ہرگز کسی لیڈر سے کم نہیں کیونکہ وہ ایسا ستون ہے جس کے سہارے اس کا پورا گھرانہ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ ماں ہی ہے جو اپنے گھرانے کی پرورش کرتی ہے اور اپنے گھرانے کے ہر فرد کے خوابوں کو تعبیر کی راہ دکھاتی ہے۔ جو گھر بنا سکتی ہے وہ دنیا کا ہر کام کر سکتی ہے۔ ہماری قوم ایسی لاتعداد خوبصورت مثالوں کا مرقع ہے جن میں خواتین نے اپنی اپنی جگہ، اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ ہم نیٹ ورک کی سلطانہ صدیقی ہوں یا منیبہ مزاری یا پھر شرمین عبید چنائے، ان سب نے جو کیا، کمال کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا کام ہے کہ اپنی ان خواتین کو قبول کرنے کا رجحان بڑھائیں جو اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لئے گھر سے قدم باہر نکالتی ہیں، اپنی تعلیم کی تکمیل کرتی ہیں اور اس طبقے کی قوت بن جاتی ہیں جو ہمارے پیدا کئے ہوئے مسائل میں الجھے ہیں۔ میری نظر میں ہر خاتون ایک لیڈر ہے اور اپنی دوڑ کی فاتح ہے، جو اپنے مقاصد کی خاطر ڈٹ کر کھڑی ہو جاتی ہے، اپنی راہ پر ثابت قدم رہتی ہے اور اپنی ایک جگہ بنا کے دکھاتی ہے۔ یہی وہ عورتیں ہیں جو ستاروں پہ کمند ڈالتی ہیں

۔

تحریر:

ایمن آصف

Leave a comment

Skip to content