سال 2019 کا عورت مارچ حالیہ سالوں کے دوران حقوقِ نسواں کی سب سے نمایاں اور شاندار سرگرمیوں میں سے ایک تھا۔ جتنے بڑے پیمانے پر اس کا اہتمام کیا گیا، سبھی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے طرح اس میں حصہ لیا، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مختلف سماجی طبقات، مذاہب، نسلی گروپوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئیں اور انہوں نے مختلف شعبوں پر غالب مردانہ سوچ کے خلاف احتجاج کیا جو ان کے ذاتی اظہار اور بنیادی حقوق کو کنٹرول کرتی ہے، اور اسے ایک حد تک محدود رکھتی ہے۔ گھریلو کارکن ہوں یا اساتذہ، خواجہ سرا ہوں یا شوبز کی شخصیات، سب نے اپنے اپنے منفرد اور جدت آمیز طریقوں سے احتجاج کا علم بلند کیا۔ مرد اور نوجوان ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، حمایت بھرے پلے کارڈ اٹھائے، اس طرح ایک ساتھ کھڑے تھے کہ ‘سب رنگ ایک ہوئے’۔ پاکستان جیسے طبقاتی تقسیم میں بٹے معاشرے میں اس طرح کا نظارہ شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
عورت مارچ پاکستان کے کئی شہروں میں ہوا، جس نے خیرخواہوں اور بدخواہوں، دونوں کو ہی حیران کر دیا۔ کسی کو توقع نہ تھی کہ اتنے زیادہ شہروں میں لوگ اتنی بڑی تعداد میں جرات اور سچائی بھرے پیغامات والے پلے کارڈ اٹھائے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ مارچ کے جواب میں جو شدید طعن اور طنز دیکھنے میں آیا وہی اس کی بھرپور کامیابی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں اس نے مردانہ سوچ کا ‘مردانہ وار’ جواب دیا۔
پاکستان میں حقوقِ نسواں کی تحریک ماضی میں جس طرح چلتی رہی ہے، عورت مارچ 2019 اس میں ایک غیرمعمولی موڑ کی مانند تھا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ حقوقِ نسواں کی ایک نئی تحریک کا آغاز تھا جو اپنے معیار کے اعتبار سے ماضی کی تحریکوں سے یکسر مختلف ہے۔ ماضی میں حقوقِ نسواں کے لئے جس طرح آواز بلند ہوتی رہی یہ اسی سفر کا ایک نیا سنگ میل ہے جس میں توجہ کا محور عام زندگی سے نجی زندگی کی جانب منتقل ہو گیا، ریاست اور معاشرے سے بات گھر اور خاندان تک پہنچ گئی، جس کے بعد کسی انقلابی تحریک کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ پاکستان میں حقوقِ نسواں کی تحریک ایک پختہ شکل اختیار کر چکی ہے جس میں بلامبالغہ اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ نجی معاملہ ہی سیاسی معاملہ ہے اور مردانہ سوچ کی بنیاد پر عام زندگی اور نجی زندگی کے درمیان فرق اصل میں غلط ہے۔
پاکستانی معاشرے کو بہت سی چیزیں تقسیم سے پہلے کے دور سے ورثے میں ملی ہیں، مثلاً ایک سے زیادہ شادیاں، پردہ، بچپن کی شادی، وارثت، طلاق، اور تعلیم کا حق وغیرہ۔ ان امور پر سماجی اور قانونی اصلاحات کے عمل کو جہاں جہاں ٹھیس پہنچی، اس پر سر تسلیم خم کر دیا گیا۔ اس لئے عورت نے جب بھی ان اصلاحات کا مطالبہ کیا کسی کو اس پر چنداں پریشانی نہ ہوئی کہ وہ سب کچھ اوپر تلے کر کے رکھ دے گی۔ یہاں تک کہ کبھی کبھار جو چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لائی گئیں تو ان کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا اور مخالف اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک یہ منسوخ نہ ہو جاتی۔
اس سے پہلے حقوق نسواں کی تحریک طرح طرح کے فرقہ ورانہ، سیاسی اور تاریخی سیاق وسباق میں چل رہی تھی اس لئے قومی اور عالمی تاریخ کے ہر دور میں جو مسائل سامنے آئے وہی اس کی آواز بن گئے۔ شروع کے سالوں میں ملک تشکیل کے عمل سے گزر رہا تھا اور تقسیم کے دوران جو خونریزی ہوئی اس کے زخم ابھی تازہ تھے۔ اس لئے کارکن خواتین کی توجہ فلاحی امور مثلاً پناہ گزینوں کی آبادکاری جیسے مسائل پر مرکوزرہی کیونکہ یہی حالات کا تقاضا تھا اور ہمارے عام کلچر میں اسی کو احترام کا درجہ مل سکتا تھا۔
عورت مارچ کے دوران جو پلے کارڈ دیکھنے کو ملے اگرچہ زیادہ تر لوگوں کی نظر میں ان کا لب ولہجہ بے باک اور دلیرانہ تھا لیکن ان میں لفظوں سے زیادہ تصویریں بول رہی تھیں۔ لہٰذا، سرد جنگ کی طرح اس نے گرماگرم بحث کی شکل اختیار کر لی۔
:تحریر
سدرا حیات