خواتین سے کئے گئے وعدے

خواتین سے کئے گئے وعدے

  • خواتین کو بااختیار بنانے میں مدد دینے کے لئے ہر سطح پر ویمن پولیس سٹیشن اور ڈیسک قائم کئے جائیں گے۔
  • ہم تحفظ خواتین کے موجودہ وفاقی اورصوبائی قوانین کا آڈٹ  کر کے ان میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کریں گے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے عزم کے تحت قانونی اصلاحات کریں گے۔
  • ہم عدالتوں کی عملی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اصلاحی اقدامات کی حمایت کریں گے۔ اس سلسلے میں عدالتوں کی مدد کی جائے گی کہ وہ مقدمات کے ریکارڈ کو ڈیجیٹل شکل میں محفوظ کریں، کیس مینجمنٹ میں اصلاحات لائیں اور ایک ادارہ قائم کیا جائے جو مستحق سائلین کے ساتھ ساتھ کمزور طبقات مثلاً خواتین، کم سن بچوں اور اقلیتوں کو مفت قانونی مدد فراہم کرے۔
  • ہم اپنے جیلوں کے نظام کی اصلاح کریں گے، موجودہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنائیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔ مزید برآں، ہم کم سن افراد کو حراست میں رکھنے کے لئے الگ خصوصی مراکز اور خواتین کے لئے جیلیں بنائیں گے۔
  • ہم خواتین کی تعلیم، حفظان صحت، معاشی مواقع اور قانونی تحفظ تک رسائی بڑھانے کے اقدامات پر موثر طریقے سے عملدرآمد کریں گے۔
  • ہم گرلز سکولوں کے قیام اور انہیں اپ گریڈ کرنے کو ترجیحی حیثیت دیں گے اور لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم جاری رکھنے پر مشاہرہ دیں گے۔
  • ہم خواتین کو بچے کی پیدائش میں معاونت کے علاوہ خاندان کی صحت اور منصوبہ بندی پر معلومات فراہم کرنے کے لئے ملک گیر سطح پر ‘میٹرنل ہیلتھ پروگرام’ شروع کریں گے۔
  • ہم خواتین کو معاشی مواقع فراہم کرنے کے لئے اراضی اور جائیداد پر خواتین کے ورا ثتی حقوق کے تحفظ کے لئے قانونی فریم ورک کو مستحکم بنائیں گے۔
  • ہم ریاست کی طرف سے خواتین کو پیش کی جانے والی مائیکروفنانس کی سہولیات بڑھا کر ان کے لئے معاشی مواقع پیدا کریں گے۔
  • ہم شہری علاقوں میں کام کرنے والی خواتین کے لئے رہائشی اور نگرانی کی سہولیات قائم کرتے ہوئے خواتین کے لئے معاشی مواقع فراہم کریں گے۔
  • ہم نظام انصاف کی اصلاح کریں گے اور صنفی جرائم کی شکایات/ ایف آئی آر کی رپورٹنگ اور تحقیقات کے لئے پولیس سٹیشنوں میں خواتین پولیس افسران کی نمائندگی بڑھائیں گے۔
  • ہم صنفی تشدد کے سلسلے میں تحقیقاتی اور استغاثہ کی کارروائیوں کو بہتر بنانے کے لئے نظام انصاف کی اصلاح کریں گے۔
  • ہم صنفی تشدد سے متاثرہ خواتین کو اضافی تحفظ اور تیز تصفیہ فراہم کرنے کے لئے صنفی تشدد کی عدالتیں قائم کرنے کے لئے نظام انصاف کی اصلاح کریں گے۔
  • ہم جنسی تشدد کے مقدمات کے لئے تحقیقاتی اور فورانزک کاروائیوں کو بہتر بنانے کے لئے نظام انصاف کی اصلاح کریں گے۔
  • ہم نظام انصاف کی اصلاح کریں گے اور صنفی تشدد سے متاثرہ خواتین کو اضافی تحفظ اور فوری دادرسی فراہم کرنے کے لئے صنفی تشدد کی عدالتیں قائم کریں گے۔
  • ہم خواتین کے لئے دارالامان اور حفاظتی خدمات کے وسائل اور استعداد بڑھائیں گے۔
  • ہم سرکاری شعبے میں خواتین کی شمولیت بڑھانے کے لئے مقامی حکومتوں اور سرکاری اداروں کے بورڈز میں خواتین کے لئے نمایاں کوٹہ مختص کریں گے۔
  • ہم سرکاری شعبے میں خواتین کی شمولیت بڑھانے کے لئے مقامی حکومتوں اور سرکاری اداروں کے بورڈز میں خواتین کے لئے نمایاں کوٹہ مختص کریں گے۔
  • ہم خواتین کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے کے لئے پاکستان بھر میں خواتین کی رجسٹریشن مہم چلائیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ خواتین ووٹ دینے کے حق سے استفادہ کریں اور انتخابات میں خواتین کی شمولیت بڑھائی جائے۔
  • ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کرنے اور لیبر مارکیٹ کو مضبوط بنانے کے وعدے کی تکمیل کے لئے ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ معاشی ترقی کے اقدامات کے تحت ان طبقات کے لئے ایمپلائمنٹ گارنٹی سکیم پیش کی جائیں جو طبقاتی تقسیم میں سب سے نیچے ہیں اور ان میں خواتین اور دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
  • ہم ماں، بچے اور خاندان کی صحت میں بہتری اور وسائل پر بوجھ میں کمی لاتے ہوئے پاکستان کی خوشحالی کی خاطر آبادی کی شرح افزائش کم کرنے کی کوششیں بروئے کار لائیں گے ۔
  • ہم طالبات کے سیکنڈری سکولز کی تعداد بڑھانے کے لئے ہر سال ان سکولوں کو اپ گریڈ کریں گے جہاں داخلے کی شرح زیادہ ہو گی اور سیکنڈری طالبات کے لئے ملک گیر سطح کے ریڈیو، ٹی وی اور آن لائن خودتدریسی پروگرام شروع کریں گے۔
  • ہم سیکنڈری سکول جانے والی طالبات کو رسائی میں درپیش رکاوٹیں کم کرنے کے لئے مشاہرہ دیں گے۔
  • ہم لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کے حجم کو دوگنا  کرتے ہوئے اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ ہر خاتون کو لیڈی ہیلتھ ورکر کی خدمات کے مکمل پیکج (بشمول خاندانی منصوبہ بندی، حمل سے متعلق امور، نوزائیدہ بچے کی نگہداشت) تک رسائی میسر ہو اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کے لئے مناسب تربیت، معاونت اور ملازمتی ڈھانچے کا اہتمام کیا جائے گا۔
  • ہم محکمہ بہبود آبادی کے علاوہ بنیادی مراکز صحت، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور کمیونٹی مڈوائف کے ہیلتھ کیئر نیٹ ورک کے ذریعے تولیدی عمر کی تمام شادی شدہ خواتین کو مانع حمل سہولیات کی موزوں دستیابی کو یقینی بنائیں گے۔
  • لڑکیوں کی تعلیم تک مساوی رسائی یقینی بنائی جائے گی۔
  • انسداد ہراسیت سیل بنایا جائے گا اور خواتین کی جسمانی اور ذہنی بہتری کو یقینی بنایا جائے گا
  • خواتین میں اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جائیں گی۔
  • خواتین میں اپنا کاروبار کے رجحان کو فروغ دینے کے لئے انہیں قرضے کی سہولیات دی جائیں گی۔
  • کابینہ کے عہدوں میں خواتین کی تعداد بڑھائی جائے گی۔
  • خواتین کے لئے محفوظ پبلک ٹرانسپورٹ سکیم شروع کی جائے گی تاکہ ان کی نقل وحرکت میں اضافہ ہو۔
  • بچے کی پیدائش پر رخصت کا دورانیہ چھ ماہ تک بڑھایا جائے گا اور رخصت کا کم سے کم دورانیہ 3 ماہ رکھا جائے گا۔
  • سماجی بہبود کی سکیمیں شروع کی جائیں گے مثلاً بچے کی پیدائش پر والد کو رخصت، تاکہ خواتین کی کام کرنے پر حوصلہ افزائی ہو۔
  • پی پی پی نے اس مقصد کے تحت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام قائم کیا کہ غریب گھرانوں کی خواتین اپنے خاندان کی خوراک کی کچھ ضروریات پوری کر سکیں۔
  • لڑکیوں کی تعلیم: پرائمری سطح سے آگے طلبہ بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لئے کم ازکم مڈل کی سطح تک اپ گریڈ کیا جائے گا اور لڑکیوں کی تعلیم کے لئے مزید وسائل مختص کئے جائیں گے۔
  • لڑکیوں کو سیکنڈری سکول اور ہائیرسیکنڈری سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے لئے مشاہرہ دیا جائے گا۔
  • کسی بھی ریگولرائزڈ پراپرٹی کی ملکیت میں خاندان کی خاتون رکن کی شمولیت ضروری قرار دی جائے گی۔
  • اصلاحات پر مبنی زراعت و لائیوسٹاک کی توسیعی اور ویٹرنری خدمات میں خواتین کو شامل کیا جائے گا مثلاً خواتین ویٹرنری ماہرین اور گھر گھر لائیوسٹاک کی توسیعی خدمات پر سرمایہ کاری کی جائے گی۔
  • خواتین کی حیثیت پر قومی کمیشن کو مستحکم بنانے کے لئے قانون کی روشنی میں اس کی مالی و انتظامی خودمختاری میں اضافہ کیا جائے گا۔
  • قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پولیس میں خواتین کی تعداد میں اضافہ یقینی بنایا جائے گا۔ خواتین کے خلاف جرائم اور عدالتی مقدمات کی کیفیت پر ایک نیشنل کیٹلاگ مرتب کیا جائے گا اور خواتین پر تشدد کے مقدمات کی پیروی کے لئے ایک سپیشل پبلک پراسیکیوٹر کا تقرر کیا جائے گا۔
  • ماؤں (اور خاندانوں) کو حمل ٹھہرنے سے لے کر بچے کے سکول جانے کی عمر (5 سال) تک کے دوران صحت، غذائیت، اور صنفی برابری پر مبنی فیصلے کرنے میں مدد دینے کے لئے نقد مراعات فراہم کی جائیں گی۔ اپنا کاروبار کرنے والی خواتین کے مارکیٹ اکانومی کے ساتھ رابطے پیدا کئے جائیں گے۔
  • خواتین درخواست گزاروں بالخصوص بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ ڈیلر لائسنسوں کے لئے درخواستیں دیں اور ان کے اندر اپنی ڈیلر شپ کے امور عمدہ طریقے سے چلانے کی مہارتیں پیدا کی جائیں گی۔
  • تولیدی عمر کی خواتین کو قبل ازپیدائش، بوقت پیدائش اور بعد از پیدائش موزوں نگہداشت فراہم کرنے کے پالیسی وعدوں کو پورا کیا جائے گا۔ اس میں خواتین کو بچے کے ایمرجنسی علاج معالجہ اور نوزائیدہ بچے کو نگہداشت کی فراہمی پر بھی توجہ دی جائے گی۔
  • تولیدی عمر کی تمام خواتین اور ان کے مرد شریک حیات کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی یقینی بنائی جائے گی۔
  • خاندانی منصوبہ بندی اور تولیدی صحت کے فروغ اور ایڈووکیسی کے لئے خصوصی آگاہی مہم اور ذرائع ابلاغ پر مہم چلائی جائے گی۔تولیدی صحت کے حقوق پر قانون سازی کی جائے گی۔لیڈی ہیلتھ ورکرز، زچہ، نومولود و بچہ کی صحت کے مراکز، اور پی پی ایچ آئی اور غذائی پروگراموں کے ذریعے عملدرآمد کی سطح پر آبادی کی منصوبہ بندی اور صحت کو ضم کر دیا جائے گا۔
  • پی پی پی حقوقِ نسواں پر ترقی پسندانہ قانون سازی کی علمبردار کے طور پر اپنے ریکارڈ کو برقرار رکھتے ہوئے انفرادی پارٹی ارکان پر انحصار کرنے کے بجائے پارٹی کے حمایت یافتہ بلوں کے ذریعے مزید قانون سازی کی تجاویز پیش کرے گی۔
  • غریب ترین، محروم اور کمزور افراد بالخصوص صوبہ سندھ کی خواتین کو بلاسود قرضے دئیے جائیں گے۔
  • قومی اور صوبائی سطح پر بجٹ منصوبہ سازی کی کارروائیوں کوصنفی تقاضوں سے ہم آہنگ بنایا جائے گا اور پالیسی ساز نہ صرف صنفی تقاضوں سے ہم آہنگ بجٹ سازی پر عملدرآمد کریں گے بلکہ بجٹ سے متعلق فیصلوں کے اثرات کا تجزیہ صنفی نقط نظر سے کریں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مرد اور خواتین دونوں سرکاری شعبے کے اخراجات سے برابر مستفید ہوں۔
  • مختلف سطحوں پرفوری قانونی اور نفسیاتی معاونت فراہم کرنے کے لئے فعال کرائسس سنٹرز فار ویمن قائم کئے جائیں گے۔
  • پی پی پی زرعی معیشت کے مخصوص طبقات مثلاً کسانوں، زرعی مزدوروں، خواتین زرعی کارکنوں، اور محروم علاقوں کے کسانوں کو معاونت فراہم کرے گی۔
  • بے نظیر ویمن ایگریکلچرل ورکرز پروگرام کے تحت خواتین زرعی کارکنوں کو قانونی طور پر تسلیم کیا جائے گا اور ان کی رجسٹریشن کی جائے گی۔
  • زراعت کے لئے ریاست کی ملکیتی اراضی کی الاٹمنٹ میں خواتین زرعی کارکنوں کو ترجیح دی جائے گی۔
  • خواتین کارکنوں کے لئے دوران حمل اور اس کے بعد ملازمت کے تحفظ کی ضمانت دی جائے گی اور میٹرنٹی رخصت مع مراعات دی جائے گی۔
  • خواتین، بالخصوص حاملہ خواتین کو ایسی خطرناک سرگرمیوں میں شامل کرنے سے تحفظ دیا جائے گا جو انہیں جسمانی زخم، زہر یا بیماری کے خطرے سے دوچار کریں اور مشاہرہ کے متبادل ذرائع مہیا کئے جائیں۔
  • ہم خواتین کو حکومت، عدلیہ اور سرکاری شعبے کے دیگر فیصلہ ساز اداروں بالخصوص جن کا تعلق فوجداری نظام انصاف سے بنتا ہو، میں خدمات انجام دینے کے مواقع دینے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں گے۔
  • پی پی پی مقامی حکومت میں اور خدمات سے متعلق اداروں میں مختلف سطحوں پر خواتین کی تعداد بڑھائے گی۔
  • فرسٹ ویمنز بینک کو سرمایہ فراہم کیا جائے گا اور اسے خواتین کو قرضوں تک موزوں رسائی دینے والے مرکزی محرک کے طور پر آگے لایا جائے گا۔
  • خواتین، بالخصوص حاملہ خواتین کو ایسی خطرناک سرگرمیوں میں شامل کرنے سے تحفظ دیا جائے گا جو انہیں جسمانی زخم، زہر یا بیماری کے خطرے سے دوچار کریں اور مشاہرہ کے متبادل ذرائع مہیا کئے جائیں۔
  • پی پی پی، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر خواتین کو منتخب کرنے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ ہمارا مقصد اسمبلیوں اور سینیٹ میں مخصوص نشستوں کو بتدریج بڑھاتے ہوئے 17 فیصد سے 33 فیصد تک لانا ہے۔
  • پی پی پی منتخب اداروں میں خواتین کے کردار کو مستحکم بنانے کے عزم پر قائم رہتے ہوئے استعداد بڑھانے کی سرگرمیوں، اسمبلی کاکس کی تشکیل اور دیگر اقدامات کے ذریعے اس امر کو یقینی بنانے کی حمایت کرے گی کہ جمہوری اداروں میں ہر سطح پر خواتین کی آراء سنی جائیں۔
  • خواتین سیاست دانوں کو محض ان کی اپنی صنف سے متعلق کمیٹیوں میں ہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی تمام قائمہ کمیٹیوں میں شامل کیا جائے گا۔ پی پی پی خواتین کو ان باڈیز کے اجلاسوں سے خواتین کو باہر رکھنے کو برداشت نہیں کرے گی جن میں وہ منتخب ہو چکی ہیں، جیسا کہ مقامی حکومتوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔
  • تولیدی عمر کی تمام خواتین اور ان کے مرد شریک حیات کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی یقینی بنائی جائے گی۔ بچوں کی پیدائش کے تمام مقامات اور اس سے متعلق وارڈز اور بیرونی مریضوں کے شعبوں میں بعد ازحمل خدمات اور کونسلنگ کی خدمات فراہم کی جائیں گی۔ تمام نئی اور پرانی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق موثر خدمات کی فراہمی کے لئے ایڈووکیسی، ابلاغ اور کونسلنگ کی تربیت دی جائے گی۔
  • اے این پی نے تمام شہریوں، قومیتوں اور طبقات کو صنف، مذہب، نسل، طبقے اور عقیدے سے قطع نظر برابر حقوق اور مواقع دینے کا تہیہ کر رکھا ہے۔  تمام امتیازی قوانین کو منسوخ کر دیا جائے گا۔ خواتین، بزرگ اور معذور افراد، خواجہ سراؤں، مذہبی اور نسلی اقلیتوں میں تحفظ کا احساس یقینی بنایا جائے گا۔
  • اے این پی کے نزدیک مقامی حکومت، جمہوری عمل کی ایک اہم پرت ہے جو لوگوں کی دہلیز پر خدمات کی رسائی اور معیار کو بہتر بناتی ہے۔ پارٹی مقامی حکومتوں کے نظام کا جائزہ لے گی، اس میں ترمیم کرے گی اور اسے مضبوط بنائے گی اور نظام میں خواتین، مزدوروں اور مذہبی اقلیتوں کی بہتر شمولیت یقینی بنائے گی۔
  • ایسے ملزمان، خواتین اور کم سن قیدی جن کے مقدمات زیرسماعت ہوں، کو مکمل طور پر الگ الگ رکھا جائے گا۔
  • اے این پی ہر سطح پر فیصلہ سازی میں خواتین کی شمولیت اور سیاسی جماعتوں میں کم سے کم نمائندگی 33 فیصد تک بڑھانے کی کوششیں جاری رکھے گی۔
  • تمام منتخب عہدوں بشمول مخصوص نشستوں/ کوٹہ کے لئے بلاواسطہ انتخابات پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا کیونکہ پارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ بلاواسطہ انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
  • خواتین کو بامعنی اور مطلوبہ تکنیکی و مالی معاونت فراہم کریں گے تاکہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں موثر طریقے سے حصہ لے سکیں۔
  • اے این پی خواتین کے لئے روزگار کے برابر مواقع اور رسائی کا عہد کرتی ہے اور ملازمتوں میں خواتین کے موجودہ کوٹہ پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے موثر پالیسی اور انتظامی اقدامات کرے گی۔
  • خواتین کے حقوق اور ان کی خودمختاری کے لئے قوانین پر موثر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ گھریلو تشدد کے قانون، بچپن کی شادی اور خواتین اور بچوں کی سمگلنگ پر قانون کے نفاذ کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔
  • ایسے تمام امتیازی قوانین اور پالیسیوں کو منسوخ کرنے کے لئے اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا جو خواتین کو برابر حقوق سے اور ریاست، خاندان، کمیونٹی اور معاشرے میں فیصلہ سازی میں حصہ لینے سے محروم کرتے ہیں۔
  • اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ ریاست کی طرف سے تجویز کئے جانے اور اپنائے جانے والے کوئی بھی قوانین، قواعد، پالیسیاں اور ضابطہ ہائے اخلاق خواتین کو خارج نہ کرتے ہوں اور/ یا ان کے ساتھ امتیاز نہ برتتے ہوں۔
  • بالغ خاتون کے لئے قومی شناختی کارڈ کی درخواست دیتے وقت مرد سرپرست کی موجودگی کی شرط ختم کر دی جائے گی۔
  • صوبوں میں ترقی خواتین کی متعلقہ وزارتوں اور محکموں کو مستحکم بنایا جائے گا۔ پیشہ ورانہ، فنی اور مالی امور کے حوالے سے ان کی استعداد بڑھائی جائے گی تاکہ وہ خواتین کے حقوق اور خودمختاری کے کٹھن ایجنڈا پر موثر طریقے سے عملدرآمد کر سکیں۔
  • اے این پی خواتین کی حیثیت پر موجودہ قومی کمیشن اور صوبائی کمیشنوں کو مالی اور انتظامی لحاظ سے خودمختار بنائے گی تاکہ وہ خواتین کے مسائل کو اجاگر کر سکیں اور ان کی پیروی کر سکیں۔
  • مقامی عمائدین اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایسے معاہدوں کی ممانعت کر دی جائے گی جن کے تحت انتخابات میں خواتین کے حصہ لینے اور/ یا ووٹ دینے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ اے این پی کسی بھی ایسے پارٹی رکن کی رکنیت منسوخ کر دے گی جو خواتین کو ووٹ دینے کے حق سے روکنے والے معاہدوں میں ملوث پایا گیا۔
  • وراثت پر خواتین کے حق، امتیازی رسوم ورواج اور بچپن کی شادی ، سوارا، گھاگ، ونی کے خاتمہ سے متعلق مروجہ قوانین پرموثر عملدرآمد کے لئے سول، عدلیہ اور پولیس میں انتظامی اصلاحات یقینی بنائی جائیں گی۔
  • نظام انصاف میں ریڈر اور محرر کی سطح پر خواتین کی بھرتی اور اعلیٰ عدالتوں میں بطور جج ضروری بھرتی پر حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
  • اے این پی معیشت کے رسمی اور غیررسمی شعبوں میں کم سے کم اجرت کی ادائیگی یقینی بنائے گی اور بالخصوص غیررسمی شعبے میں یونین سازی کا حق یقینی بنائے گی۔
  • خواتین کو نئے عہدوں پر لانے اور انہیں نئے شعبوں کا حصہ بنانے کے رجحان کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ انہیں دقیانوسی پیشوں تک محدود رکھنے والی سوچ کو ختم کیا جا سکے۔ خواتین کو ان کی پسند اور تعلیمی قابلیت کے مطابق شعبوں میں روزگار اور تعلیم کے برابر مواقع فراہم کئے جائیں گے۔
  • اے این پی تمام اضلاع میں ماس ٹرانسپورٹ کا بہتر نظام شروع کرے گی جس میں خواتین اور معذور افراد کے لئے مخصوص جگہوں اور محفوظ ماحول کا اہتمام کیا جائے گا۔
  • اے این پی تمام سرکاری دفاتر، صنعتی یونٹس، یونیورسٹیوں اور کارپوریشز میں ڈے کیئر سنٹرز کی پالیسی وضع کرے گی جسے لازمی قرار دیا جائے گا۔ اے این پی خواتین کے لئے کام کے دوستانہ ماحول پر پالیسی رہنمائی دے گی۔
  • اے این پی اس امر کو یقینی بنائے گی کہ تمام سرکاری و نجی دفاتر، مارکیٹوں، اور شاپنگ مالز میں خواتین کے لئے الگ، صاف اور فعال ٹائلٹ ہونے چاہئیں جہاں معذور خواتین کے لئے بھی انتظام کیا گیا ہو۔
  • اے این پی ویمنز چیمبرز کے ذریعے خواتین کے زیرانتظام کاروباری اداروں کو مراعات فراہم کرے گی۔
  • اے این پی سکولوں میں تعلیم کے ابتدائی سالوں سے ہی ایسا نصاب متعارف کرائے گی جس میں صنفی برابری، خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر اسباق شامل ہوں گے۔
  • اے این پی شرح خواندگی بالخصوص خواتین کے لئے 25 فیصد تک بڑھائے گی۔
  • سرکاری یونیورسٹیوں میں میرٹ کی بنیاد پر ایم ایس اور پی ایچ ڈی طلبہ کو ریسرچ فیلوشپ دی جائے گی۔ طلبہ اور اساتذہ بالخصوص خواتین کے لئے یونیورسٹی کیمپس میں یا اس کے نزدیک ہاسٹل سہولیات کی دستیابی کا انتظام کیا جائے گا۔
  • اے این پی پرائمری سکول سطح پر کوالیفائیڈ خواتین ٹیچرز کی بھرتی کو ترجیح دے گی۔
  • اے این پی خواتین کارکنوں اور بزرگ شہریوں کے لئے باچا خان ہیلتھ کیئر پیکجز اور مراعات شروع کرے گی۔
  • کمیونٹی ویمن ہیلتھ ورکرز اور پیدائش میں معاونت فراہم کرنے والوں کی باقاعدہ تربیت کا انتظام کیا جائے گا اور ان کی خدمات کو بیسک ہیلتھ یونٹس اور زچہ و بچہ کی صحت کے مراکز کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔
  • ماں اور بچے کی صحت اور بہتری کے فروغ کے لئے ابلاغی مہم شروع کی جائے گی جس میں مردوں، خواتین، خاندانوں اور کمیونٹی کو مخاطب کیا جائے گا۔
  • سکولوں تک رسائی بالخصوص لڑکیوں کے لئے، ہر طریقے سے ممکن بنائی جائے گی۔ ہر یونین کونسل میں کم ازکم لڑکوں کے لئے تین اور لڑکیوں کے لئے بھی تین پرائمری سکول ہوں گے۔
  • سرکاری سکولوں کے طلبہ بالخصوص طالبات کے لئے میرٹ اور ضرورت کی بنیاد پر وظائف کی دستیابی کا انتظام کیا جائے گا۔
  • خواتین کے لئے وراثت اور ملکیت کے حقوق کا نفاذ کیا جائے گا۔
  • خواتین کو تعلیم اور کام کے لئے محفوظ اور احترام پر مبنی ماحول مہیا کیا جائے گا۔
  • معاشرے میں خواتین کے خلاف امتیاز کے خاتمہ کے لئے سماجی رویوں اور قوانین میں تبدیلیاں لائی جائیں گی۔
  • گھریلو صنعتوں کو فروغ دیا جائے گا تاکہ خواتین گھروں پر بیٹھ کر کام کر سکیں۔
  • پرائمری سطح پر پڑھانے کے لئے خواتین کو ترجیح دی جائے گی۔
  • بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین کے معاملے میں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی ملازمتوں میں عمر کی حد پر رعایت دی جائے گی۔
  • بھاری جہیز، قرآن سے شادی، ونی، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل وغیرہ جیسی غیراسلامی رسموں کی روک تھام کی جائے گی۔
Skip to content