خواتین کی خودمختاری ایک پیچیدہ تصور ہے  جو مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے اور  گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی نئی تعریفیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا مطلب ہے مختلف مادی وسائل تک خواتین کی بہتر رسائی۔ ان وسائل میں بہت سی چیزیں شامل ہیں مثلاً اراضی،  پیسہ، قرضے کی سہولت، آمدنی، باعزت روزگار کے ایسے مواقع کی دستیابی جہاں کام کرنے کے حالات اچھے ہوں، سیاسی اور فیصلہ ساز اداروں میں نمائندگی کی شکل میں اقتدار و اختیار تک رسائی، اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کی آزادی، آئین اور بین الاقوامی معاہدوں میں جن بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے ان سے استفادہ کرنے کے مواقع، معیاری تعلیم اورصحت کی سہولیات تک برابر رسائی، نقل وحرکت کی آزادی تاکہ وہ مختلف سہولیات تک رسائی حاصل کر سکیں، اپنے جسم، جنسی رجحان اور تولیدی فیصلوں پر کنٹرول، وغیرہ۔ یہ وہ شعبے ہیں جن میں خواتین اکثر استحصال کا نشانہ بنتی ہیں اور اسی بناء پر خواتین کی خودمختاری کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ خواتین کی حیثیت برابر ہو، انہیں تمام حقوق میسر ہوں اور وہ سب کچھ کر سکیں جس سے ان کی ذات کی تکمیل ہو۔ خواتین خودمختار ہوں گی تو گھر اور خاندان کی حالت بہتر ہو گی اور معیشت، معاشرہ اور ملک ترقی کریں گے۔ تاہم پاکستان میں خواتین پوری طرح خودمختار نہیں ہیں اور اکثر ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی  کی جاتی ہیں۔

 

اس سیاق وسباق میں ایک نمایاں پیشرفت 2002 میں اس وقت  ہوئی جب وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر خواتین کے لئے مخصوص کوٹہ میں اضافہ کیا گیا۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 51، اب اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی  کا ضامن ہے۔ قومی اسمبلی کی کل 342 میں سے کم وبیش 60 نشستیں خواتین کے لئے مخصوص ہیں۔ خواتین کی مخصوص نشستیں ملک کے چار صوبوں کے لئے درج ذیل طریقے سے مختص کی گئی ہیں: پنجاب (35 نشستیں)، سندھ (14 نشستیں)، خیبرپختونخوا (8 نشستیں) اور بلوچستان (3 نشستیں)۔ ان نشستوں کے لئے خواتین کا انتخاب متناسب نمائندگی پر مبنی فہرست کے بالواسطہ نظام کے تحت کیا جاتا ہے جس میں سیاسی جماعتیں انتخابات سے پہلے مخصوص نشستوں کے لئے اپنی اپنی خواتین امیدواروں کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو جمع کراتی ہیں۔ جنرل نشستوں کے انتخابی نتائج کو حتمی شکل ملنے کے بعد یہ مخصوص نشستیں، سیاسی جماعتوں کو ہر صوبے میں ان کی حاصل کی ہوئی جنرل نشستوں کی تعداد کے تناسب سے مختص کی جاتی ہیں۔ صوبائی اسمبلیاں بھی اسی تناسب سے خواتین کی نمائندگی یقینی بناتی ہیں۔

 

ملک وقوم کے لئے پارلیمانی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ خواتین ارکان پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وہ پاکستان میں خواتین کو مزید خودمختار بنانے کے لئے بھی کام کریں۔ ملکی قوانین خواتین کے قانونی حقوق پر سب سے زیادہ اثر دکھاتے ہیں۔ لہٰذا، ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جو ایک شہری اور خاندان کی فرد کی حیثیت سے خواتین کے عمومی  حقوق میں بہتری لائیں، خواتین کو معاشی حقوق دیں اور انہیں آمدنی حاصل کرنے کے مواقع فراہم کریں، اور عملی زندگی کے عوامی شعبوں میں قدم رکھنے والی خواتین کا تحفظ یقینی بنائیں۔  اس کے علاوہ خواتین کو نقصان یا ضرر پہنچانے اور ان کے ساتھ امتیاز برتنے والی روایات اور طریقوں سے انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لئے بھی نئے قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ قوانین پر عملدرآمد اپنی جگہ اہم ہے لیکن عملدرآمد کی بات تو تب کی جائے جب قوانین موجود ہوں۔

Leave a comment

Skip to content